Razi Raziuddin

رضی رضی الدین

رضی رضی الدین کی غزل

    چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا

    چپکے سے مجھ کو آج کوئی یہ بتا گیا کل رات میں بھی اس کی خیالوں میں آ گیا جیسے کہ کھل اٹھے کوئی جاتی بہار میں مردہ پڑا تھا میں مجھے چھو کر جلا دیا اک روشنی میں ڈوبے ہوئے تھے مرے چراغ وہ وصل کے لئے مرے پہلو میں آ گیا مدت کے بعد نیند کی لذت نہ پوچھئے نشہ چڑھا ہوا تھا سو چڑھتا چلا ...

    مزید پڑھیے

    شب ذرا دیر سے گزرے گی نہ گھبرا اے دل

    شب ذرا دیر سے گزرے گی نہ گھبرا اے دل صبح خود ہوگی نمودار ٹھہر جا اے دل کھو گئی گیسوئے جاناں کہ گھنی چھاؤں کہاں ہر طرف دھوپ کا تپتا ہوا صحرا اے دل کوچۂ یار میں آئے تھے کن امیدوں سے لٹ گئی آ کے یہاں شوق کی دنیا اے دل کیسی شورش سی بپا ہے کبھی چل کر دیکھیں قتل گاہوں میں ہے یہ کیسا ...

    مزید پڑھیے

    شب دراز تجھے کچھ خبر گئی کہ نہیں

    شب دراز تجھے کچھ خبر گئی کہ نہیں سحر قریب سے چھو کر گزر گئی کہ نہیں چمن میں جاؤ ذرا اور پھر بتاؤ ہمیں گلوں کے چہرے سے زردی اتر گئی کہ نہیں تمہارے شہر میں کیوں آج ہو کا عالم ہے صبا ادھر سے گزر کر ادھر گئی کہ نہیں پتا کرو مرے معشوق کی گلی جا کر بہار بھی وہیں جا کر ٹھہر گئی کہ ...

    مزید پڑھیے

    کوہ غم اتنا گراں اتنا گراں ہے اب کے

    کوہ غم اتنا گراں اتنا گراں ہے اب کے ہے کہاں تیشہ گراں آہ گراں ہے اب کے میکشوں اتنا نہ پی جاؤ کہ غم ڈوب جائے پھر نہ پھٹ جائے یہ آتش جو فشاں ہے اب کے تنگ‌ دامان یہ دنیائے ستم زور الم بڑھتا جائے ہے رواں اور دواں ہے اب کے چشمۂ ناب نہ بڑھ کر جنوں سیلاب بنے بہہ نہ جائے کہ یہ مٹی کا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے محور سے جب اتر جاؤں

    اپنے محور سے جب اتر جاؤں پھول کی طرح پھر بکھر جاؤں لوٹ پھر آؤں کیسے محور پر کوئی بتلاؤ کیا میں کر جاؤں جانے کیا کہہ رہی ہے دنیا اب پہلے کہتی تھی کیوں نہ مر جاؤں مجھ سے ہرگز سے نہ ہو سکے گا کبھی خود کو اوروں کے جیسا کر جاؤں ڈوب جاؤں بھنور کے ساتھ کہیں لہر کے ساتھ پھر ابھر ...

    مزید پڑھیے

    درد و غم سب سنانے بیٹھے ہیں

    درد و غم سب سنانے بیٹھے ہیں چھیڑ اپنے فسانے بیٹھے ہیں آشیاں کو جلا کے جی نہ بھرا اب وہ ہم کو جلانے بیٹھے ہیں تم نہ تھے تو یہاں پہ کوئی نہ تھا آج کتنے دوانے بیٹھے ہیں اس فقیری کی پادشاہی تو دیکھ فرش کو عرش مانے بیٹھے ہیں آستانہ ترا خدا کا گھر اور ہم آزمانے بیٹھے ہیں

    مزید پڑھیے

    کاش پڑتے نہ ان عذابوں میں

    کاش پڑتے نہ ان عذابوں میں ڈھونڈتے ہیں تمہیں سرابوں میں کبھی کانٹوں کبھی گلابوں میں کھو گئے ہم یہ کن عذابوں میں نشۂ یار کا نشہ مت پوچھ ایسی مستی کہاں شرابوں میں اس کا جلوہ دکھائی دیتا ہے سارے چہروں پہ سب کتابوں میں سامنے ہوں تو آنکھ کھلتی نہیں جاگتے ہیں ہم ان کے خوابوں میں

    مزید پڑھیے

    دہکا پڑا ہے جامۂ گل یار خیر ہو

    دہکا پڑا ہے جامۂ گل یار خیر ہو جلنے لگے ہیں دامن گلزار خیر ہو چھلکا پڑا ہے چہروں سے اک وحشت جنوں پھیلا پڑا ہے عشق کا بازار خیر ہو کن حادثاتی دور سے دو چار ان دنوں آ بیٹھے ہیں اب گھر میں ہی اغیار خیر ہو ''گرنے لگے ہیں سر در و دیوار خیر ہو'' لگتے نہیں ہیں اچھے کچھ اشعار خیر ہو بکنے ...

    مزید پڑھیے

    اور کتنے ابھی ستم ہوں گے

    اور کتنے ابھی ستم ہوں گے کتنے سر اور ابھی قلم ہوں گے جبر و ظلمت کی اس خدائی میں جانے کن کن پہ کیا کرم ہوں گے اس اندھیرے میں جلتے چاند چراغ رکھتے کس کس کا وہ بھرم ہوں گے

    مزید پڑھیے

    قلب و جگر کے داغ فروزاں کئے ہوئے

    قلب و جگر کے داغ فروزاں کئے ہوئے ہیں ہم بھی اہتمام بہاراں کئے ہوئے دیوانۂ خرد ہو کہ مجنون عشق ہو رہنا ہے اس کو چاک گریباں کئے ہوئے پردے میں شب کے ہم نے چھپائے ہیں دل کے زخم اک تیرگی ہے درد کا درماں کئے ہوئے دل کا عجیب حال ہے بے اختیار ہے یادوں کی میزبانی کا ساماں کئے ہوئے راز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2