کاش پڑتے نہ ان عذابوں میں
کاش پڑتے نہ ان عذابوں میں
ڈھونڈتے ہیں تمہیں سرابوں میں
کبھی کانٹوں کبھی گلابوں میں
کھو گئے ہم یہ کن عذابوں میں
نشۂ یار کا نشہ مت پوچھ
ایسی مستی کہاں شرابوں میں
اس کا جلوہ دکھائی دیتا ہے
سارے چہروں پہ سب کتابوں میں
سامنے ہوں تو آنکھ کھلتی نہیں
جاگتے ہیں ہم ان کے خوابوں میں