سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا
سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا
اندھیری رات میں میرا دیا تھا ہاتھ اس کا
کچھ ایسی نیند سے جاگی کہ پھر نہ سوئی وہ آنکھ
جلا کیا یوں ہی کاجل تمام رات اس کا
تمام شب وہ ستاروں سے گفتگو اس کی
تمام شب وہ سمندر سا التفات اس کا
کبھی وہ ربط کہ آنکھوں میں جس طرح کاجل
کبھی بچھڑ کے وہ ملنا غزل صفات اس کا
دعا کے ہاتھ ہی جیسے دیا سنبھالتے ہیں
محبتوں میں وہ اسلوب احتیاط اس کا
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آیا شوقؔ
پکارتا ہی رہا مجھ کو شہر ذات اس کا