آج بے چہرہ ہیں چہروں کے سمندر کتنے
آج بے چہرہ ہیں چہروں کے سمندر کتنے آئنے ڈھونڈتے پھرتے ہیں سکندر کتنے میں نے بچوں کے نمونے کے جو بنوائے تھے بہہ گئے وقت کے سیلاب میں وہ گھر کتنے ایک آنسو بھی نہیں ایک تبسم بھی نہیں مٹ گئے حرف غلط بن کے مقدر کتنے ہم نے اپنا ہی مکاں آج کھلا چھوڑ دیا پھینک سکتا ہے کہیں سے کوئی پتھر ...