دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں
نہ گئیں آہ و زاریاں نہ گئیں
دن کو چھوٹا نہ انتظار ان کا
شب کو اختر شماریاں نہ گئیں
نہ چھپا گریۂ شب فرقت
رخ سے اشکوں کی دھاریاں نہ گئیں
آ گئے وہ بھی وعدے پر لیکن
آہ کی شعلہ باریاں نہ گئیں
تنگ آ کر وہ چل دیے گھر کو
جب مری اشک باریاں نہ گئیں
اس نے خط پھاڑ کر کہا یہ رشیدؔ
تیری مضموں نگاریاں نہ گئیں