Rasa Chughtai

رسا چغتائی

رسا چغتائی کی غزل

    ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت

    ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت تم کچھ اس کی بات کرو ہے جس سے تم کو پیار بہت لوگ ہم ایسے نادانوں کو آئیں گے سمجھانے بھی تیرا غم پھر تیرا غم ہے غم ہے تو غم خوار بہت آئے موسم گل دیکھیں وہ کس کس کو زنجیر کریں اب کے سنا ہے اہل چمن بھی بیٹھے ہیں بیزار بہت ان کو بے حس جان نہ ...

    مزید پڑھیے

    محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے

    محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے مگر اپنی جگہ یہ واقعہ ہے جسے ہم واہمہ سمجھے ہوئے ہیں وہ سایہ بھی تری دیوار کا ہے مکاں سرگوشیوں سے گونجتے ہیں اندھیرا روزنوں سے جھانکتا ہے در و دیوار چپ سادھے ہوئے ہیں فقط اک عالم ہو بولتا ہے مری آنکھوں پہ عینک دوسری ہے کہ یہ تصویر کا رخ دوسرا ہے سنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اب جو دیکھا تو داستان سے دور

    اب جو دیکھا تو داستان سے دور اٹھ رہا تھا دھواں چٹان سے دور دیکھنا کیا مکان کی جانب اب یہاں بیٹھ کر مکان سے دور ہجر کس آنکھ کا ستارہ ہے رقص کرتا ہے آسمان سے دور زندگی کا کوئی ہدف تو بنا دل کوئی صید کر کمان سے دور جانتا ہوں زمین کس کی ہے بیٹھ جاتا ہوں سائبان سے دور دل وہ آتش کدہ ...

    مزید پڑھیے

    میرؔ جی سے اگر ارادت ہے

    میرؔ جی سے اگر ارادت ہے قول ناسخؔ کی کیا ضرورت ہے کون پوچھے یہ میرؔ صاحب سے ان دنوں کیا جنوں کی صورت ہے چاند کس مہ جبیں کا پرتو ہے رات کس زلف کی حکایت ہے کیا ہوائے بہار تازہ ہے کیا چراغ سرائے عبرت ہے زندگی کس شجر کا سایہ ہے موت کس دشت کی مسافت ہے آگ میں کیا گل معانی ہیں خاک میں ...

    مزید پڑھیے

    ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں

    ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں خدا جانے مری گٹھری میں کیا ہے نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی کن آوازوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک درویش کا قصہ الگ ہے

    ہر اک درویش کا قصہ الگ ہے مگر طرز بیاں اپنا الگ ہے غنیمت ہے بہم مل بیٹھنا بھی اگرچہ وصل کا لمحہ الگ ہے ملے تھے کب جو ہم اب پھر ملیں گے ہمارا آپ کا رستہ الگ ہے عبارت ہے شعور زندگی سے نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا الگ ہے نہیں ہے اور وابستہ ہے سب سے ہمارے درد کا رشتہ الگ ہے

    مزید پڑھیے

    تیر جیسے کمان کے آگے

    تیر جیسے کمان کے آگے موت کڑیل جوان کے آگے بادشاہ اور فقیر دونوں تھے شہر میں اک دکان کے آگے چلتے چلتے زمین رک سی گئی ناگہاں اک مکان کے آگے ہم بھی اپنا مجسمہ رکھ آئے رات اندھی چٹان کے آگے طشت جاں میں سجا کے رکھنا تھا حرف دل میہمان کے آگے کیا عجب شخص ہے کہ بیٹھا ہے دھوپ میں ...

    مزید پڑھیے

    رات کیا سوچ رہا تھا میں بھی

    رات کیا سوچ رہا تھا میں بھی اپنے عالم کا خدا تھا میں بھی وہ بھی کچھ خود سے الگ تھا جیسے اپنے سائے سے جدا تھا میں بھی وہ بھی تھا ایک ورق سادہ کتاب حرف بے صوت و صدا تھا میں بھی صورت شاخ ثمر دار تھا وہ صورت دست صبا تھا میں بھی وہ بھی اک حلقۂ گرداب میں تھا اور بس ڈوب چلا تھا میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3