محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے
محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے
مگر اپنی جگہ یہ واقعہ ہے
جسے ہم واہمہ سمجھے ہوئے ہیں
وہ سایہ بھی تری دیوار کا ہے
مکاں سرگوشیوں سے گونجتے ہیں
اندھیرا روزنوں سے جھانکتا ہے
در و دیوار چپ سادھے ہوئے ہیں
فقط اک عالم ہو بولتا ہے
مری آنکھوں پہ عینک دوسری ہے
کہ یہ تصویر کا رخ دوسرا ہے
سنا ہے ڈوبنے والے نے پہلے
کسی کا نام ساحل پر لکھا ہے
گزر کس کا ہوا ہے جو ابھی تک
دو عالم آئنہ بردار سا ہے
یہ دنیا مٹ گئی ہوتی کبھی کی
مگر اک نام ایسا آ گیا ہے
محبت ہے رساؔ میری عبادت
یہ میرا دل مرا دست دعا ہے