Raqeeb Anjum

رقیب انجم

رقیب انجم کی غزل

    دریا تھا کہ سمندر تھا وہ

    دریا تھا کہ سمندر تھا وہ دھند میں ڈوبا منظر تھا وہ چاند جسے کہتی ہے دنیا کل شب میرے در پر تھا وہ دل کے بدلے دل لے لینا شاید کہ سوداگر تھا وہ میں تو زمیں کی خاک سے بھی کم آسمان کا اختر تھا وہ جانتا نہ تھا سنگ تراشی یوں کہنے کو آذر تھا وہ ہاتھ لگا نہ ایک صدف بھی کہنے کو تو شناور ...

    مزید پڑھیے

    جانے ہوتا ہے کب کہاں دیکھو

    جانے ہوتا ہے کب کہاں دیکھو وقت اب ہم پہ مہرباں دیکھو وہ جو بدلا تو کیا تعجب ہے رنگ بدلے ہے آسماں دیکھو خاک اڑا کرتی تھی جہاں پہلے پھول کھلتے ہیں اب وہاں دیکھو کیا کیا گزرے ہیں نامور اب تک ان زمینوں سے بے نشاں دیکھو ساتھ غم کے خوشی بھی شامل ہے پھول کانٹوں کے درمیاں دیکھو جانے ...

    مزید پڑھیے

    وہ نظر روٹھی ہوئی ہے آج بھی

    وہ نظر روٹھی ہوئی ہے آج بھی بکھری بکھری زندگی ہے آج بھی ٹوٹے پھوٹے گاؤں کے گھر میں نظر جانے کس کو ڈھونڈھتی ہے آج بھی آ گئی تھی ان کے جانے سے جو کل زندگی میں وہ کمی ہے آج بھی نہ سہی گہری برائے نام ہی ان سے میری دوستی ہے آج بھی عاشقوں کے ذہن و دل پر حکمراں حسن کی بازی گری ہے آج ...

    مزید پڑھیے

    دھوکے کھاتا رہا بار بار آدمی

    دھوکے کھاتا رہا بار بار آدمی پھر بھی کرتا رہا اعتبار آدمی گھومتا پھرتا ہے ذہن و دل میں لئے مسئلے زندگی کے ہزار آدمی اپنے مطلب کی خاطر مرے آپ کے ڈالتا ہے دلوں میں درار آدمی کوئی آتا نہیں مدتوں تک یہاں کس کا کرتا ہے یہ انتظار آدمی مسئلے رنج و غم جال پھیلائے ہیں ہوتا رہتا ہے ہر ...

    مزید پڑھیے

    اب کہاں ان کا حسیں ساتھ چلو سو جائیں

    اب کہاں ان کا حسیں ساتھ چلو سو جائیں پھیکی پھیکی ہے ہر اک رات چلو سو جائیں منتقل کر دیں دل و ذہن کہیں اور اپنے جان لے لیں نہ یہ صدمات چلو سو جائیں ہجر کی شب تو یوں ہی جاگتے گزری ساری اب سحر سے ہے ملاقات چلو سو جائیں موسم گل میں بھی اب سوئے ہوئے رہتے ہیں اب کہاں یار وہ جذبات چلو سو ...

    مزید پڑھیے

    اپنی قسمت آزمانے شہر میں

    اپنی قسمت آزمانے شہر میں آتے رہتے ہیں دوانے شہر میں ہیں نشانے پر ترے پاگل ہوا اور کتنے آشیانے شہر میں خانۂ دل کو سجانے کے لئے کیا نہیں میرے سہانے شہر میں آج بھی ہے منفرد اپنا مقام آج بھی ہیں جانے مانے شہر میں ایسے ہیں جیسے ہواؤں میں دیے ہم غریبوں کے ٹھکانے شہر میں اور کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بہتی ہوئی آنکھوں سے دھواں دیکھ رہا ہوں

    بہتی ہوئی آنکھوں سے دھواں دیکھ رہا ہوں شعلوں میں گھرا اپنا مکاں دیکھ رہا ہوں بچپن جہاں بیتا جہاں آئی تھی جوانی اس شہر میں اب جائے اماں دیکھ رہا ہوں جو ہاتھ ہوا کرتے تھے آغوش محبت ان ہاتھوں میں اب تیر و کماں دیکھ رہا ہوں سب آپ کے چہرے کی طرف دیکھ رہے ہیں میں آپ کے قدموں کے نشاں ...

    مزید پڑھیے