اپنی قسمت آزمانے شہر میں

اپنی قسمت آزمانے شہر میں
آتے رہتے ہیں دوانے شہر میں


ہیں نشانے پر ترے پاگل ہوا
اور کتنے آشیانے شہر میں


خانۂ دل کو سجانے کے لئے
کیا نہیں میرے سہانے شہر میں


آج بھی ہے منفرد اپنا مقام
آج بھی ہیں جانے مانے شہر میں


ایسے ہیں جیسے ہواؤں میں دیے
ہم غریبوں کے ٹھکانے شہر میں


اور کچھ انجمؔ بھلے ہی ہو نہ ہو
زندگی تو ہے پرانے شہر میں