بہتی ہوئی آنکھوں سے دھواں دیکھ رہا ہوں

بہتی ہوئی آنکھوں سے دھواں دیکھ رہا ہوں
شعلوں میں گھرا اپنا مکاں دیکھ رہا ہوں


بچپن جہاں بیتا جہاں آئی تھی جوانی
اس شہر میں اب جائے اماں دیکھ رہا ہوں


جو ہاتھ ہوا کرتے تھے آغوش محبت
ان ہاتھوں میں اب تیر و کماں دیکھ رہا ہوں


سب آپ کے چہرے کی طرف دیکھ رہے ہیں
میں آپ کے قدموں کے نشاں دیکھ رہا ہوں


تنقید نگاروں میں نہ کرنا مجھے شامل
میں آپ کا انداز بیاں دیکھ رہا ہوں


خود اپنی ہی گردن کا ہے نقصان زیادہ
میں اتنی بلندی پہ کہاں دیکھ رہا ہوں


ہر لمحہ ہی نغمات طرب رہتے تھے جن پر
ان ہونٹوں پہ اب آہ و فغاں دیکھ رہا ہوں


یاروں کی جو محفل تھی کبھی انجمن خاص
انجمؔ وہیں اندیشۂ جاں دیکھ رہا ہوں