وہ نظر روٹھی ہوئی ہے آج بھی
وہ نظر روٹھی ہوئی ہے آج بھی
بکھری بکھری زندگی ہے آج بھی
ٹوٹے پھوٹے گاؤں کے گھر میں نظر
جانے کس کو ڈھونڈھتی ہے آج بھی
آ گئی تھی ان کے جانے سے جو کل
زندگی میں وہ کمی ہے آج بھی
نہ سہی گہری برائے نام ہی
ان سے میری دوستی ہے آج بھی
عاشقوں کے ذہن و دل پر حکمراں
حسن کی بازی گری ہے آج بھی
گرمئ بازار اب بھی ہے وہاں
بستیوں میں دل کشی ہے آج بھی
ذہن کے تاریک گوشوں میں ابھی
نقرئی سی اک ہنسی ہے آج بھی
گھیر لیتی ہیں جہاں یادیں مجھے
اس نگر میں وہ گلی ہے آج بھی
پی تھی ان آنکھوں سے ہم نے مے کبھی
دل میں انجمؔ تشنگی ہے آج بھی