Ram Riyaz

رام ریاض

رام ریاض کی غزل

    یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو

    یادوں کے دریچوں کو ذرا کھول کے دیکھو ہم لوگ وہی ہیں کہ نہیں بول کے دیکھو ہم اوس کے قطرے ہیں کہ بکھرے ہوئے موتی دھوکا نظر آئے تو ہمیں رول کے دیکھو کانوں میں پڑی دیر تلک گونج رہے گی خاموش چٹانوں سے کبھی بول کے دیکھو ذرے ہیں مگر کم نہیں پاؤ گے کسی سے پھر جانچ کے دیکھو ہمیں پھر تول ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کیف ہجر عزیز ہے تو زر وصال سمیٹ لے

    مجھے کیف ہجر عزیز ہے تو زر وصال سمیٹ لے میں جو تیرا کوئی گلہ کروں مری کیا مجال سمیٹ لے مرے حرف و صوت بھی چھین لے مرے صبر و ضبط کے ساتھ تو مرا کوئی مال برا نہیں میرا سارا مال سمیٹ لے یہ تمام دن کی مسافتیں یہ تمام رات کی آفتیں مجھے ان دنوں سے نجات دے مرا یہ وبال سمیٹ لے سبھی ریزہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی مرقد کا ہی زیور ہو جائیں

    کسی مرقد کا ہی زیور ہو جائیں پھول ہو جائیں کہ پتھر ہو جائیں خشکیاں ہم سے کنارا کر لیں تم اگر چاہو سمندر ہو جائیں تو نے منہ پھیرا تو ہم ایسے لگے جس طرح آدمی بے گھر ہو جائیں یہ ستارے یہ سمندر یہ پہاڑ کس طرح لوگ برابر ہو جائیں اپنا حق لوگ کہاں چھوڑتے ہیں دوست بن جائیں برادر ہو ...

    مزید پڑھیے

    زنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے

    زنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے دروازہ دیکھتے کبھی دیوار دیکھتے پستی نشین ہو کے میں کتنا بلند تھا گردن جھکا کے تم مرا معیار دیکھتے سب دوڑتے تھے اس کی عیادت کے واسطے جس کو ذرا سا نیند سے بیدار دیکھتے دل بیٹھنے لگے تو نگاہیں بھی تھک گئیں کب تک تری طرف ترے بیمار دیکھتے کس ...

    مزید پڑھیے

    ذرہ انسان کبھی دشت نگر لگتا ہے

    ذرہ انسان کبھی دشت نگر لگتا ہے بعض اوقات ہمیں ایسا بھی ڈر لگتا ہے ہم نشیں تیری بھی آنکھوں میں جھلکتا ہے دھواں تو بھی منجملۂ ارباب نظر لگتا ہے کوئی لیتا ہے ترا نام تو رک جاتا ہوں اب ترا ذکر بھی صدیوں کا سفر لگتا ہے ہم پہ بیداد گرو سنگ اٹھانا ہے فضول کہیں افتادہ درختوں پہ ثمر ...

    مزید پڑھیے

    گزشتہ اہل سفر کو جہاں سکون ملا

    گزشتہ اہل سفر کو جہاں سکون ملا نہ جانے کیوں ہمیں ان منزلوں پہ خون ملا خراب وقت ہے اب فاصلہ ہی بہتر ہے کبھی ملیں گے جو ماحول پر سکون ملا کبھی زمانے سے مانگا تھا پیکر شیریں تراشنے کو ہمیں کوہ بے ستون ملا وہ رامؔ نخل وفا ہے میں برگ آوارہ اسے جمود ملا ہے مجھے جنون ملا

    مزید پڑھیے

    لہکتی لہروں میں جاں ہے کنارے زندہ ہیں

    لہکتی لہروں میں جاں ہے کنارے زندہ ہیں وجود آب کے سب استعارے زندہ ہیں وہ ہجرتوں کی حکایت تمہیں سنائیں گے جنہوں نے سر سے یہ طوفاں گزارے زندہ ہیں ہمارے کرب کتابوں میں ہیں ابھی محفوظ وہ سارے صفحے وہ سب گوشوارے زندہ ہیں ازل سے جبر و صداقت کی جنگ جاری ہے ابھی تلک نہیں مظلوم ہارے ...

    مزید پڑھیے

    مسکراتی آنکھوں کو دوستوں کی نم کرنا

    مسکراتی آنکھوں کو دوستوں کی نم کرنا رام ایسے افسانے چھوڑ دو رقم کرنا اب کہاں وہ پہلی سی فرصتیں میسر ہیں سارا دن سفر کرنا ساری رات غم کرنا صبر کی روایت میں جبر کی عدالت میں لب کبھی نہ وا کرنا سر کبھی نہ زخم کرنا میں گناہ گاروں میں صاحب طریقت ہوں داخلی شہادت پر میرا سر قلم ...

    مزید پڑھیے

    میں اندھیروں کا پجاری ہوں مرے پاس نہ آ

    میں اندھیروں کا پجاری ہوں مرے پاس نہ آ اپنے ماحول سے عاری ہوں مرے پاس نہ آ روپ محلوں کی تو رانی ہے ترا نام بڑا میں تو کلیوں کا بھکاری ہوں مرے پاس نہ آ مری آواز نے کتنے ہی چمن پھونک دیے نالۂ صبح بہاری ہوں مرے پاس نہ آ رنج و آلام کے صحراؤں میں دریا بن کر میں بڑے زور سے جاری ہوں مرے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی والے تو دنیا دیکھیں

    روشنی والے تو دنیا دیکھیں ہم اندھیرے کے سوا کیا دیکھیں اپنی قسمت میں بھی کچھ ہے کہ نہیں اب ذرا ہاتھ تو پھیلا دیکھیں تو کبھی صبح کا تارا بن جائے ہم تجھے دور سے تنہا دیکھیں آگ پانی میں اگر جنگ ہوئی کس طرف آدمی ہوگا دیکھیں جان سے ہاتھ نہ دھوئے جائیں اور بہتا ہوا دریا دیکھیں کس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3