Ram Riyaz

رام ریاض

رام ریاض کی غزل

    سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے

    سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے رستے بڑے دشوار تھے اور کوس کڑے تھے لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے بہتا تھا مرے پاؤں تلے ریت کا دریا اور دھوپ کے نیزے مری نس نس میں گڑے تھے پیڑوں پہ کبھی ہم نے بھی پتھراؤ کیا تھا شاخوں سے مگر سوکھے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا

    تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا میں وہ پاگل کہ فقط آنکھ میں آنسو لایا مطلع جاں پہ کرن ایسی نمودار ہوئی جیسے کوئی تری آواز کی خوشبو لایا مجھ کو اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے تو کہاں سے مری آنکھیں مرے بازو لایا ان میں کوئی نہیں لگتا ہے شناسا چہرہ رامؔ کس آئینہ خانہ میں مجھے ...

    مزید پڑھیے

    اس ڈر سے اشارہ نہ کیا ہونٹ نہ کھولے

    اس ڈر سے اشارہ نہ کیا ہونٹ نہ کھولے دیکھے کہ نہ دیکھے کوئی بولے کہ نہ بولے پتھر کی طرح تم نے مرا سوگ منایا دامن نہ کبھی چاک کیا بال نہ کھولے میں نے سر گرداب کئی بار پکارا ساحل سے مگر لوگ بڑی دیر سے بولے میں عالم تنہائی میں نکلا ہوں سفر پر پھر گردش ایام کہیں ساتھ نہ ہو لے ہم کہنہ ...

    مزید پڑھیے

    لفظ بے جاں ہیں مرے روح معانی مجھے دے

    لفظ بے جاں ہیں مرے روح معانی مجھے دے اپنی تخلیق سے تو کوئی نشانی مجھے دے تیرا بھی نام رہے میں بھی امر ہو جاؤں ایسا عنوان کوئی ایسی کہانی مجھے دے چل رہی ہے بڑی شدت سے یہاں سرد ہوا مجھ کو بجھنے سے بچا سوز نہانی مجھے دے یہ حسیں پیڑ یہ خوشبو مری کمزوری ہے دن کا سب مال ترا رات کی رانی ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا

    کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا امیر شہر میں جب بھی کوئی غریب آیا ہوا میں زہر گھلا پانیوں میں آگ لگی تمہارے بعد زمانہ بڑا عجیب آیا بریدہ دست برہنہ بدن شکستہ پا ترے دیار میں کیا کیا نہ بد نصیب آیا کسی کو اب نہ ستائے گی مرگ نامعلوم چراغ دار جلے موسم صلیب آیا برس مہینوں میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ آنکھیں سرخ رکھتے ہیں نہ چہرے زرد رکھتے ہیں

    نہ آنکھیں سرخ رکھتے ہیں نہ چہرے زرد رکھتے ہیں یہ ظالم لوگ بھی انسانیت کا درد رکھتے ہیں مجھے شک ہے کہ تم تیرہ شبوں میں کیسے نکلو گے چٹانیں کاٹنے کا حوصلہ تو مرد رکھتے ہیں محبت کرنے والوں کی تمہیں پہچان بتلاؤں دلوں میں آگ کے با وصف سینہ سرد رکھتے ہیں ہوا نے اہل صحرا کو عجب ملبوس ...

    مزید پڑھیے

    روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا

    روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا ہم نے انسان میں انسان کو مرنے نہ دیا تیرے بعد ایسی بھی تنہائی کی منزل آئی کہ مرا ساتھ کسی راہ گزر نے نہ دیا کون تھا کس نے یہاں دھوپ کے بادل برسائے اور ترے حسن کی چاندی کو نکھرنے نہ دیا پیاس کی آگ لگی بھوک کی آندھی اٹھی ہم نے پھر جسم کا شیرازہ ...

    مزید پڑھیے

    کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے

    کہیں جنگل کہیں دربار سے جا ملتا ہے سلسلہ وقت کا تلوار سے جا ملتا ہے میں جہاں بھی ہوں مگر شہر میں دن ڈھلتے ہی میرا سایہ تری دیوار سے جا ملتا ہے تیری آواز کہیں روشنی بن جاتی ہے تیرا لہجہ کہیں مہکار سے جا ملتا ہے چودھویں رات تری زلف میں ڈھل جاتی ہے چڑھتا سورج ترے رخسار سے جا ملتا ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے

    آنکھوں میں تیز دھوپ کے نیزے گڑے رہے ہم تیرے انتظار میں پھر بھی کھڑے رہے تم رک گئے پہ سنگ کا میلہ نہ کم ہوا اس کارواں کے ساتھ مسافر بڑے رہے میرے بدن پہ صرف ہوا کا لباس تھا تیری قبا میں چاند ستارے جڑے رہے سائے کو لوگ پوجتے آئے ہیں دیر سے پتے ہمیشہ پاؤں میں بکھرے پڑے رہے شاید وہ ...

    مزید پڑھیے

    دل میں تو بہت کچھ ہے زباں تک نہیں آتا

    دل میں تو بہت کچھ ہے زباں تک نہیں آتا میں جتنا چلوں پھر بھی یہاں تک نہیں آتا لوگوں سے ڈرے ہو تو مرے ساتھ چلے آؤ اس راستے میں کوئی مکاں تک نہیں آتا اس ضد پہ ترا ظلم گوارا کیا ہم نے دیکھیں کہ تجھے رحم کہاں تک نہیں آتا ایک ایک ستارہ مری آواز پہ بولا میں اتنی بلندی سے وہاں تک نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3