گزشتہ اہل سفر کو جہاں سکون ملا

گزشتہ اہل سفر کو جہاں سکون ملا
نہ جانے کیوں ہمیں ان منزلوں پہ خون ملا


خراب وقت ہے اب فاصلہ ہی بہتر ہے
کبھی ملیں گے جو ماحول پر سکون ملا


کبھی زمانے سے مانگا تھا پیکر شیریں
تراشنے کو ہمیں کوہ بے ستون ملا


وہ رامؔ نخل وفا ہے میں برگ آوارہ
اسے جمود ملا ہے مجھے جنون ملا