Raj Narayan Raaz

راج نرائن راز

معروف شاعر، ادیب اور صحافی۔ لمبے عرصے تک آجکل کے مدیر رہے

Distinguished writer, poet and journalist. Earned a remarkable repute as the Editor of the popular Urdu magazine Aajkal.

راج نرائن راز کی نظم

    جیسے فسانہ ختم ہوا

    کمرے کی خاموش فضا میں اک مانوس سی خوشبو تھی مہکی سانسوں کا سرگم تھا کنچن کا یا قرب کی حدت سے نکھری تھی سورج کی ایک ایک کرن اجلی تھی پلکیں بوجھل، آنکھیں بند، حواس مسخر چڑھتی دھوپ میں اک نشہ تھا اس کا فسانہ اک لکھنا تھا کمرے کی خاموش فضا خالی تھی قرب کی خوشبو کنچن کایا سانس کے ...

    مزید پڑھیے

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

    کھیت کے چاروں سمت لگائی میں نے باڑھ گھنے تھوہر کی سوچا سمجھا اب کے مویشی روند نہ پائیں گے فصلوں کو کھیتی اب تاراج نہ ہوگی دھرتی اب سونا اگلے گی بنتے بنتے بات بنی تھی بگڑ گئی لیکن پل بھر میں کاٹ کے میں نے باڑ کا تھوہر اپنی انگلی خود کاٹی تھی کھیت کے رکھوالے تھوہر نے ہائے یہ ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    مآل

    میں نے جب بھی پلٹ کے دیکھا ہے دھند کچھ آئینے سے چھوٹی ہے عکس کچھ آئنے میں ابھرے ہیں میں نے دیکھا ہے اک شکستہ پر زندگی سے تمام تر عاری جیسے ماضی ہو! عہد رفتہ ہو ایک نا سفتہ گوہر شفاف جیسے اک آفتاب تازہ ہو روز آئندہ، روز فردا ہو ایک شاہین ماورا سے پرے ایک نکھری ہوئی فضائے بسیط حال ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    میرے گھر کے آنگن میں یہ پیڑ گھنیرا کیسا ہے اس کی شاخوں سے ہر لمحہ زہر ٹپکتا رہتا ہے خون جگر سے ننھی ننھی کلیاں جب سبھی آتی ہیں ان کا خوں ہو جاتا ہے پل بھر میں مرجھا جاتی ہیں اس کی شاخوں سے ہر لمحہ زہر ٹپکتا رہتا ہے سخت پریشاں حیراں ہوں اس کروٹ کے دیکھ چکا ہوں یہ ویسے کا ویسا ہے میرے ...

    مزید پڑھیے

    غروب

    میں اکثر سوچا کرتا ہوں کاش میں نٹ کھٹ بالک ہوتا اور پٹک دیتا اک پل میں خواہش کے اونچے گنبد سے جیون کا بے رنگ کھلونا اور کہیں جا کر سو جاتا لوگ ٹھٹک جاتے پل بھر کو لمبی آہیں بھرتے کہتے! کیسا کھلونا! ٹوٹ گیا ہے! کام میں پھر وہ یوں کھو جاتے جیسے اندھی شب میں دھوئیں کے سانپ فلک کی جانب ...

    مزید پڑھیے

    تنہا لمحوں کی سرگوشی

    تنہا لمحوں نے آ آ کر کان میں سرگوشی کی اکثر پوچھا ساتھی یہ تو بتاؤ زہر کے کتنے جام پیے ہیں جھوٹوں کو کیا مکاروں کو پھٹکارا للکارا بھی ہے دار کے گہرے سائے میں کیا جھنڈا حق کا لہرایا ہے پیار کو اک آدرش بنا کر کب قصد تصلیب کیا ہے جب جب بزم میں آئے ہو تم گم سم چپ چپ سر لٹکائے طوق گلے میں ...

    مزید پڑھیے

    عذاب

    مجھے شک کی نظروں سے کیوں دیکھتے ہو مری بات سچ ہے مری بات سچ ہے میں کل رات ناگوں سے لڑتا رہا ہوں کنہیا نہیں میں جو ناگوں کو نتھ لوں میں ایسا بڑا کوئی انسان کب ہوں جو حرف شکایت بھی لب پر نہ لائے نہ جو یہ کہے میں تو بس باز آیا وہ گوریلا فوجیں ہیں یا ناگ کالے نکلتے ہی دن کے وہ جاتے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا زوال

    ایک حویلی ڈھا کر! تم نے اک اونچا ایوان بنایا سارے ساج فراہم کر کے خوب سنوارا خوب سجایا اور حویلی کے ملبے کو! ایسی جگہ پھنکوایا جہاں پر ایک گلاب کی شاخ نو پر ایک نویلا پھول کھلا تھا پھول بھی کیسا! جس سے سب کی روح معطر ہو جاتی تھی!

    مزید پڑھیے

    بکھیڑے

    دائرے، کچھ نیم حلقے یہ ریاضی کے بکھیڑے جی کا اک جنجال ہیں باتیں زیاں کی سود کی میں مقید دائروں میں اس طرح کوسوں کو تکتا ہوں جیسے اک بیمار بچہ نقش و لفظ و صوت سے بیزار بستر پر کھلی کھڑکی سے رنگیں لال نیلے پیلے بیلونوں کو حسرت کی نگہ سے دیکھتا ہے جو معلق ہیں فضا میں

    مزید پڑھیے

    توصیف

    اس نے کہا تھا: بول رہٹ کے اور پنچھی کے سب الفاظ صدائیں ساری جو تحلیل ہوئیں نیلے گنبد میں جو تحریر ہوئیں لمحوں پر جو محسوب ہوئیں سانسوں سے نیل گگن میں صبح ازل سے تیر رہی ہیں آج بھی ان کو سن سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں اس نے کہا تھا: شبد امر ہے.....

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2