Raj Narayan Raaz

راج نرائن راز

معروف شاعر، ادیب اور صحافی۔ لمبے عرصے تک آجکل کے مدیر رہے

Distinguished writer, poet and journalist. Earned a remarkable repute as the Editor of the popular Urdu magazine Aajkal.

راج نرائن راز کی غزل

    سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی

    سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی لب بہ لب خواہش اظہار کہاں سے آئی کس حنا ہاتھ سے آنگن ہے معطر اتنا وقت خوش ساعت بیدار کہاں سے آئی ہاں یہ ممکن ہے نیا موڑ ہو پھولوں جیسا پھر یہ پازیب کی جھنکار کہاں سے آئی خون میں نشۂ اظہار کا خنجر پیوست درمیاں چپ کی یہ تلوار کہاں سے آئی ہم خرابے کے ...

    مزید پڑھیے

    کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا

    کیا بات تھی کہ جو بھی سنا ان سنا ہوا دل کے نگر میں شور تھا کیسا مچا ہوا تم چھپ گئے تھے جسم کی دیوار سے پرے اک شخص پھر رہا تھا تمہیں ڈھونڈتا ہوا اک سایہ کل ملا تھا ترے گھر کے آس پاس حیران کھویا کھویا سا کچھ سوچتا ہوا شاید ہوائے تازہ کبھی آئے اس طرف رکھا ہے میں نے گھر کا دریچہ کھلا ...

    مزید پڑھیے

    میں سنگلاخ زمینوں کے راز کہتا ہوں

    میں سنگلاخ زمینوں کے راز کہتا ہوں میں گیت بن کے چٹانوں کے بیچ گونجا ہوں طلوع صبح کا منظر عجیب ہے کتنا مرا خیال ہے میں پہلی بار جاگا ہوں مرا وجود غنیمت ہے سوچئے تو سہی میں خشک ڈال کا پتا ہرا ہرا سا ہوں بجا کہ روز اندھیرا مجھے نگلتا ہے میں روز اک نیا خورشید بن کے اٹھتا ہوں کسی نے ...

    مزید پڑھیے

    جانے کس خواب کا سیال نشہ ہوں میں بھی

    جانے کس خواب کا سیال نشہ ہوں میں بھی اجلے موسم کی طرح ایک فضا ہوں میں بھی ہاں دھنک ٹوٹ کے بکھری تھی مرے بستر پر اے سکوں لمس ترے ساتھ جیا ہوں میں بھی راہ پامال تھی چھوڑ آیا ہوں ساتھی سوتے کوری مٹی کا گنہ گار ہوا ہوں میں بھی کتنا سرکش تھا ہواؤں نے سزا دی کیسی کاٹھ کا مرغ ہوں اب باد ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا

    کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ...

    مزید پڑھیے

    بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے

    بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے قدرت کے آدمی سے عجب سلسلے رہے وہ شخص کیا ہوا جو مقابل تھا! سوچیے! بس اتنا کہہ کے آئنے خاموش ہو گئے اس آس پر کہ خود سے ملاقات ہو کبھی اپنے ہی در پہ آپ ہی دستک دیا کئے پتے اڑا کے لے گئی اندھی ہوا کہیں اشجار بے لباس زمیں میں گڑے رہے کیا بات ...

    مزید پڑھیے

    کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو

    کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیا نہ ہو گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں پیش نگاہ جیسے کوئی آئینا نہ ہو وحشی ...

    مزید پڑھیے

    باہم سلوک خاص کا اک سلسلہ بھی ہے

    باہم سلوک خاص کا اک سلسلہ بھی ہے وہ کون ساتھ ساتھ ہے لیکن جدا بھی ہے برگ خزاں کی زرد سی تحریر ہے مگر دست شفق میں پھول سنہرا کھلا بھی ہے ایتھر کی دھند میں ہیں گئے موسموں کے نقش اک ہاتھ پیٹھ پر ہے دیا اک جلا بھی ہے افکار جیسے شخص برہنہ نگر کے ہیں! الفاظ اجنبی کہ نیا ناروا بھی ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹی ہوئی دیوار کی تقدیر بنا ہوں

    ٹوٹی ہوئی دیوار کی تقدیر بنا ہوں میں کیسا فسانہ ہوں کہاں لکھا ہوا ہوں کوئی بھی مرے کرب سے آگاہ نہیں ہے میں شاخ سے گرتے ہوئے پتے کی صدا ہوں مٹھی میں لیے ماضی و امروز کی کرنیں میں کب سے نئے دور کی چوکھٹ پہ کھڑا ہوں اس شہر پر آشوب کے ہنگامہ و شر میں زیتون کی ڈالی ہوں کہیں شاخ حنا ...

    مزید پڑھیے