Rafique Khayal

رفیق خیال

رفیق خیال کی غزل

    شام تھی ہم تھے اور سمندر تھا

    شام تھی ہم تھے اور سمندر تھا کس قدر دل فریب منظر تھا اک طرف تھی خوشی اجالوں کی اک طرف شام ہونے کا ڈر تھا تھے پریشان تیر نظروں کے جب تلک دل مرا ہدف پر تھا وہ تھا کمسن یہ سچ سہی لیکن حسرتوں میں مرے برابر تھا دل تو تھا مطمئن رفاقت میں خوف سا دھڑکنوں کے اندر تھا اپنے ہاتھوں اسے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سچ ہے بہم اس کی محبت بھی نہیں تھی

    یہ سچ ہے بہم اس کی محبت بھی نہیں تھی اور ترک مراسم ہوں یہ ہمت بھی نہیں تھی اس شخص کی الفت میں گرفتار یہ دل تھا جس شخص کو چھونے کی اجازت بھی نہیں تھی کچھ زخم تمنا کو نہ تھا شوق مداوا کچھ اس کو مسیحائی کی عادت بھی نہیں تھی تھے راہ محبت میں پڑاؤ کئی لازم کیا کیجیے رکنا مری فطرت بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3