Rafique Khayal

رفیق خیال

رفیق خیال کی نظم

    وصالیہ

    دھرتی سلگ رہی تھی آکاش جل رہا تھا بے رنگ تھیں فضائیں موسم بدل رہا تھا خوشبو مرے بدن کو گلزار کر رہی تھی وہ کیف بے خودی میں کلیاں مسل رہا تھا کروٹ بدل رہے تھے ارمان میرے دل کے جب چاندنی کا منظر دریا میں ڈھل رہا تھا جلووں کا رقص میں نے مستانہ وار دیکھا بنت عنب کا جانے دل کیوں مچل رہا ...

    مزید پڑھیے

    دستک

    حالات کے کالے بادل نے مرے چھت کے چاند کو گھیر لیا تدبیر ہو ممکن خاک کوئی کہ باہر رقصاں تاریکی اور اندر پھیلی تنہائی دروازے پر دستک دے کر آلام کی وحشت ہنستی ہے اور سرگوشی میں کہتی ہے کہ اب کیسے بچ پاؤ گے میری تشنہ بے باکی سے کس سے باتیں کر کے مجھ کو اب تم دھوکے میں رکھوگے

    مزید پڑھیے