Rafique Khayal

رفیق خیال

رفیق خیال کے تمام مواد

22 غزل (Ghazal)

    یہ بات منکشف ہوئی چراغ کے بغیر بھی

    یہ بات منکشف ہوئی چراغ کے بغیر بھی میں ڈھونڈ لوں گا ہر خوشی چراغ کے بغیر بھی ہوا تھا جس جگہ کبھی وصال یار دوستو ہے اس جگہ پہ روشنی چراغ کے بغیر بھی لکھی گئی ہیں جس کے ساتھ زندگی کی منزلیں وہ آ ملے گا آدمی چراغ کے بغیر بھی مسرتوں کے قافلے لٹا رہی ہے پھر مجھے تری یہ خود سپردگی ...

    مزید پڑھیے

    اداس شام کی تنہائیوں میں جلتا ہوا

    اداس شام کی تنہائیوں میں جلتا ہوا وہ کاش آئے کبھی میرے پاس چلتا ہوا شب فراق نے مسمار سارے خواب کیے کوئی تو مژدہ سنائے یہ دن نکلتا ہوا ہے کیا عجب کہ کبھی چاند بھی اندھیروں میں سکوں تلاش کرے زاویے بدلتا ہوا مرے مسیحا خدا آج تیرا رکھے بھرم نظر مجھے نہیں آتا یہ جی بہلتا ہوا میں ...

    مزید پڑھیے

    حصار ذات سے باہر نہ اپنے گھر میں ہیں

    حصار ذات سے باہر نہ اپنے گھر میں ہیں ہم اس زمیں کی طرح مستقل سفر میں ہیں بھٹک رہے ہیں اندھیرے مسافروں کی طرح اجالے محو‌ سکوں دامن سحر میں ہیں جنہیں خبر ہی نہیں شرح زندگی کیا ہے وہ مجرموں کی طرح قید اپنے گھر میں ہیں تو اعتبار شب انتظار ہے جاناں ترے فراق کے موسم مری نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں کی مسافت سے کٹ کے دیکھتے کیا

    محبتوں کی مسافت سے کٹ کے دیکھتے کیا مسافر شب ہجراں پلٹ کے دیکھتے کیا سرور عشق میں گم ہو گئے تھے ہم دونوں ہوائے دامن شب سے لپٹ کے دیکھتے کیا طلسم یار رگ و پے میں ڈھل رہا تھا، ہم نشاط و غم کے صحیفے الٹ کے دیکھتے کیا بہار نو کو جنم دے رہی تھی وصل کی شب ہم عافیت کی رتوں میں سمٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    زندہ ہیں مرے خواب یہ کب یاد ہے مجھ کو

    زندہ ہیں مرے خواب یہ کب یاد ہے مجھ کو ہاں ترک محبت کا سبب یاد ہے مجھ کو تفصیل عنایات تو اب یاد نہیں ہے پر پہلی ملاقات کی شب یاد ہے مجھ کو خوشبو کی رفاقت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے لیکن وہ سفر داد طلب یاد ہے مجھ کو اب شام کے ہاتھوں جو گرفتار ہے سورج دوپہر میں تھا قہر و غضب یاد ہے مجھ ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    وصالیہ

    دھرتی سلگ رہی تھی آکاش جل رہا تھا بے رنگ تھیں فضائیں موسم بدل رہا تھا خوشبو مرے بدن کو گلزار کر رہی تھی وہ کیف بے خودی میں کلیاں مسل رہا تھا کروٹ بدل رہے تھے ارمان میرے دل کے جب چاندنی کا منظر دریا میں ڈھل رہا تھا جلووں کا رقص میں نے مستانہ وار دیکھا بنت عنب کا جانے دل کیوں مچل رہا ...

    مزید پڑھیے

    دستک

    حالات کے کالے بادل نے مرے چھت کے چاند کو گھیر لیا تدبیر ہو ممکن خاک کوئی کہ باہر رقصاں تاریکی اور اندر پھیلی تنہائی دروازے پر دستک دے کر آلام کی وحشت ہنستی ہے اور سرگوشی میں کہتی ہے کہ اب کیسے بچ پاؤ گے میری تشنہ بے باکی سے کس سے باتیں کر کے مجھ کو اب تم دھوکے میں رکھوگے

    مزید پڑھیے