Rafiq Siraji

رفیق سراجی

  • 1955

رفیق سراجی کی غزل

    رہین حسرت و حرمان و یاس بیٹھے ہیں

    رہین حسرت و حرمان و یاس بیٹھے ہیں وہ شادماں ہیں مگر ہم اداس بیٹھے ہیں کریں تو کیسے یقیں ہم کریں وفا پہ تری رقیب اب بھی ترے آس پاس بیٹھے ہیں وہ ایک تو کہ خود اپنی خطا پہ روٹھ گیا پر ایک ہم کہ سراپا سپاس بیٹھے ہیں کسی کا جام رہے ہیں کسی کا مے خانہ ہم ایک عمر سے خود بن کے پیاس بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    لمحے بے چینی کے تو نے بھی گزارے ہوں گے

    لمحے بے چینی کے تو نے بھی گزارے ہوں گے تیری آنکھوں میں مرے بھی تو نظارے ہوں گے میری نادار محبت کی شکایت تو نہ کر تیری نخوت نے کبھی ہاتھ پسارے ہوں گے بے خودی جانے کہاں مجھ کو لئے پھرتی ہے کسی بے نام سی منزل کے اشارے ہوں گے کبھی غرقاب ہوا تھا جو سفینہ میرا جانتا تھا کہ بہت دور ...

    مزید پڑھیے

    کوئی رستے ہوئے زخموں کی دوا بن جائے

    کوئی رستے ہوئے زخموں کی دوا بن جائے کوئی بیمار محبت کا خدا بن جائے کوئی بے سود امیدوں کا سہارا ہووے کوئی بہتے ہوئے اشکوں کی ردا بن جائے کوئی پہنچے مری تسکین کا ساماں بن کر کوئی تڑپی ہوئی آہوں کی صدا بن جائے کوئی ہمدرد اٹھے مونس و غم خوار بنے میرے حق میں کوئی پھر دست دعا بن ...

    مزید پڑھیے

    اک بے کراں سکوت ہے اب شامل حیات

    اک بے کراں سکوت ہے اب شامل حیات اف کس جگہ پہ ٹھہر گئی نبض کائنات دکھ ہے نہ مستیاں ہیں نہ آوارگی کوئی اللہ رے قیامت پژمردگیٔ ذات نشہ تھا زندگی تھی طبیعت جوان تھی اب غم نہیں جو تیرا تو بے رنگ ہے حیات میرے جنوں کو آپ سخن گستری کہیں پنہاں ہیں ایک لفظ میں کتنے ہی تجربات آؤ رفیقؔ ...

    مزید پڑھیے