رہین حسرت و حرمان و یاس بیٹھے ہیں

رہین حسرت و حرمان و یاس بیٹھے ہیں
وہ شادماں ہیں مگر ہم اداس بیٹھے ہیں


کریں تو کیسے یقیں ہم کریں وفا پہ تری
رقیب اب بھی ترے آس پاس بیٹھے ہیں


وہ ایک تو کہ خود اپنی خطا پہ روٹھ گیا
پر ایک ہم کہ سراپا سپاس بیٹھے ہیں


کسی کا جام رہے ہیں کسی کا مے خانہ
ہم ایک عمر سے خود بن کے پیاس بیٹھے ہیں


تمہارے ذکر پہ جی بھر کے روئے چلائے
کچھ ایسے دل کی نکالے بھڑاس بیٹھے ہیں