کوئی رستے ہوئے زخموں کی دوا بن جائے
کوئی رستے ہوئے زخموں کی دوا بن جائے
کوئی بیمار محبت کا خدا بن جائے
کوئی بے سود امیدوں کا سہارا ہووے
کوئی بہتے ہوئے اشکوں کی ردا بن جائے
کوئی پہنچے مری تسکین کا ساماں بن کر
کوئی تڑپی ہوئی آہوں کی صدا بن جائے
کوئی ہمدرد اٹھے مونس و غم خوار بنے
میرے حق میں کوئی پھر دست دعا بن جائے
کوئی ابھرے مرے ہونٹوں پہ سیاہی بن کر
آخری ہچکی بنے وجہ قضا بن جائے
کوئی درماندہ جوانی کو بھی پہنائے کفن
روئے چلائے کہ پر شور فضا بن جائے
ہم کو لے جائے مزاروں کے شہر کوئی رفیقؔ
کوئی بے دست جنازے کا عصا بن جائے