Rafia Shabnam Abidi

رفیعہ شبنم عابدی

رفیعہ شبنم عابدی کی نظم

    ببلو کا گیت اسکول جانے سے پہلے

    اپنے بڑھتے ہوئے بالوں کو کٹا لوں تو چلوں غسل خانے میں ذرا دھوم مچا لوں تو چلوں اور ایک کیک مزے دار سا کھا لوں تو چلوں ابھی چلتا ہوں ذرا پیاس بجھا لوں تو چلوں رات میں اک بڑا دلچسپ تماشا دیکھا مجھ سے مت پوچھ مرے یار کہ کیا کیا دیکھا ٹھیک کہتے ہو مدھر سا کوئی سپنا دیکھا آنکھ تو مل لوں ...

    مزید پڑھیے

    یوم خواتین

    آج بھی کوئی کہیں گوش بر آواز نہ تھا آج بھی چاروں طرف لوگ تھے اندھے بہرے آج بھی میری ہر اک سوچ پہ بیٹھے پہرے آج بھی تم مری ہر سانس کے مالک ٹھہرے میرا گم نام سا کھویا سا یہ بے چین وجود ایک پہچان کا صدیوں سے جو دیوانہ رہا آج بھی اپنے سے بیگانہ رہا اور جیا بھی تو جیا بن کے کسی کا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کچھ اور

    ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں ابھی کچھ اور رسالوں تک مجھے گننا ہے ان کو ابھی کچھ قرض ہے مجھ پر سبھی کا ابھی کچھ اور خوشیاں بانٹنی ہیں ابھی کچھ قہقہوں کو نغمگی خیرات کرنی ہے گہر کرنا ہے لفظوں کو زمین حرف و معنی سے ابھی کچھ خار چننے ہیں خیالوں کو دھنک بننا ہے شاید نئے خوابوں کو ...

    مزید پڑھیے

    شرط رفاقت

    تم مرے پاس رہو ساتھ رہو اور یہ احساس رہے میں کہ آزاد ہوں جینے کے لئے اور زندہ ہوں خود اپنے اندر اپنی ہی ذات میں تابندہ ہوں اپنی ہر سانس پہ قبضہ ہے مرا اپنی پاکیزہ تمناؤں کی تکمیل کا حق ہے مجھ کو اپنے معصوم سے جذبات کی ترسیل کا حق ہے مجھ کو یہ زمیں میری بھی یہ دشت و چمن میرے بھی صرف ...

    مزید پڑھیے