ببلو کا گیت اسکول جانے سے پہلے

اپنے بڑھتے ہوئے بالوں کو کٹا لوں تو چلوں
غسل خانے میں ذرا دھوم مچا لوں تو چلوں
اور ایک کیک مزے دار سا کھا لوں تو چلوں
ابھی چلتا ہوں ذرا پیاس بجھا لوں تو چلوں
رات میں اک بڑا دلچسپ تماشا دیکھا
مجھ سے مت پوچھ مرے یار کہ کیا کیا دیکھا
ٹھیک کہتے ہو مدھر سا کوئی سپنا دیکھا
آنکھ تو مل لوں ذرا ہوش میں آ لوں تو چلوں
میں تھکا ہارا تھا اتنے میں مداری آیا
اس نے کچھ پڑھ کے مرے سر کو ذرا سہلایا
میں نے خود کو کسی رنگین محل میں پایا
ایسے دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں
جانے کیا بات ہے باجی کو جو ہے مجھ سے جلن
سب سے کہتی ہیں کہ اس لونڈے کے بگڑے ہیں چلن
مجھ کو پیٹا تو مرا اشکوں سے بھیگا دامن
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھا لوں تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے شرارت کا غرور
اپنی دانائی کا یعنی کہ حماقت کا غرور
دوست کہتے ہیں اسے تو ہے ذہانت کا غرور
ایسے وہموں سے ابھی خود کو نکالوں تو چلوں