جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں
جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں جی کہتا تھا اس سے کہہ دوں لیکن کیسے کہتی میں میری ذات کا جس کی نظر سے اتنا گہرا رشتہ ہے اس کی آنکھ سمندر جیسی ہری بھری اک دھرتی ہے بند کواڑوں پر اک جانی پہچانی دستک جو سنی یوں ہی ڈوپٹہ چھوڑ کے بھاگی ننگے پاؤں ہی پگلی میں کس کا چہرہ دیکھ ...