Rafia Shabnam Abidi

رفیعہ شبنم عابدی

رفیعہ شبنم عابدی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں

    جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں جی کہتا تھا اس سے کہہ دوں لیکن کیسے کہتی میں میری ذات کا جس کی نظر سے اتنا گہرا رشتہ ہے اس کی آنکھ سمندر جیسی ہری بھری اک دھرتی ہے بند کواڑوں پر اک جانی پہچانی دستک جو سنی یوں ہی ڈوپٹہ چھوڑ کے بھاگی ننگے پاؤں ہی پگلی میں کس کا چہرہ دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    وہ تیری یاد کے لمحے ترے خیال کے دن

    وہ تیری یاد کے لمحے ترے خیال کے دن علاج درد کے زخموں کے اندمال کے دن وہ اک رچی بسی تہذیب اپنے پرکھوں کی وہ دو یا چار سہی تھے مگر مثال کے دن مجھے تو یاد ہے اب تک وہ کیا زمانہ تھا ترے جواب کا موسم مرے سوال کے دن ہر ایک پل وہ کبھی روٹھنا کبھی مننا ندامتوں کی وہ گھڑیاں وہ انفعال کے ...

    مزید پڑھیے

    ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا

    ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا میز پر تیری کتابوں کو سجائے رکھا تو نے اک شام جو آنے کا کیا تھا وعدہ میں نے دن رات چراغوں کو جلائے رکھا کس سلیقے سے خیالوں کو زباں دے دے کر مجھ کو اس شخص نے باتوں میں لگائے رکھا میں وہ سیتا کہ جو لچھمن کے حصاروں میں رہی ہم وہ جوگی کہ الکھ پھر ...

    مزید پڑھیے

    بسنتی رت ہے سب پھولوں کو تو محفوظ رکھنا

    بسنتی رت ہے سب پھولوں کو تو محفوظ رکھنا میرے اللہ کھلی سرسوں کو تو محفوظ رکھنا سروں کو کاٹنے کی فصل پھر سے آ گئی ہے ان افشاں سے بھری مانگوں کو تو محفوظ رکھنا جلیں جب گھر تو یا رب تجھ سے اتنی التجا ہے دوپٹوں سے ڈھکے چہروں کو تو محفوظ رکھنا فضاؤں میں ہزاروں باز منڈلانے لگے ہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ابر چھایا تھا فضاؤں میں تری باتوں کا

    ابر چھایا تھا فضاؤں میں تری باتوں کا کتنا دل کش تھا وہ منظر بھری برساتوں کا بجھتی شمعوں کے تعفن سے بچانے تجھ کو میں نے آنچل میں سمیٹا ہے دھواں راتوں کا کوئی شہنائی سے کہہ دو ذرا خاموش رہے شور اچھا نہیں لگتا مجھے باراتوں کا لاکھ دروازے ہوں چپ اور دریچے خاموش چوڑیاں راز اگلتی ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    ببلو کا گیت اسکول جانے سے پہلے

    اپنے بڑھتے ہوئے بالوں کو کٹا لوں تو چلوں غسل خانے میں ذرا دھوم مچا لوں تو چلوں اور ایک کیک مزے دار سا کھا لوں تو چلوں ابھی چلتا ہوں ذرا پیاس بجھا لوں تو چلوں رات میں اک بڑا دلچسپ تماشا دیکھا مجھ سے مت پوچھ مرے یار کہ کیا کیا دیکھا ٹھیک کہتے ہو مدھر سا کوئی سپنا دیکھا آنکھ تو مل لوں ...

    مزید پڑھیے

    یوم خواتین

    آج بھی کوئی کہیں گوش بر آواز نہ تھا آج بھی چاروں طرف لوگ تھے اندھے بہرے آج بھی میری ہر اک سوچ پہ بیٹھے پہرے آج بھی تم مری ہر سانس کے مالک ٹھہرے میرا گم نام سا کھویا سا یہ بے چین وجود ایک پہچان کا صدیوں سے جو دیوانہ رہا آج بھی اپنے سے بیگانہ رہا اور جیا بھی تو جیا بن کے کسی کا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی کچھ اور

    ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں ابھی کچھ اور رسالوں تک مجھے گننا ہے ان کو ابھی کچھ قرض ہے مجھ پر سبھی کا ابھی کچھ اور خوشیاں بانٹنی ہیں ابھی کچھ قہقہوں کو نغمگی خیرات کرنی ہے گہر کرنا ہے لفظوں کو زمین حرف و معنی سے ابھی کچھ خار چننے ہیں خیالوں کو دھنک بننا ہے شاید نئے خوابوں کو ...

    مزید پڑھیے

    شرط رفاقت

    تم مرے پاس رہو ساتھ رہو اور یہ احساس رہے میں کہ آزاد ہوں جینے کے لئے اور زندہ ہوں خود اپنے اندر اپنی ہی ذات میں تابندہ ہوں اپنی ہر سانس پہ قبضہ ہے مرا اپنی پاکیزہ تمناؤں کی تکمیل کا حق ہے مجھ کو اپنے معصوم سے جذبات کی ترسیل کا حق ہے مجھ کو یہ زمیں میری بھی یہ دشت و چمن میرے بھی صرف ...

    مزید پڑھیے