کیوں جوئے رواں آ کے یوں آنکھوں میں کھڑی ہے
کیوں جوئے رواں آ کے یوں آنکھوں میں کھڑی ہے
لگتا ہے پہاڑوں پہ کہیں برف پڑی ہے
اے درد کبھی اٹھ بھی سہی تنگئ دل سے
مدت سے در دل پہ کوئی یاد کھڑی ہے
منزل کو چلے یا کسی مقتل کو چلے ہیں
ہر راہ یوں لگتی ہے کہ زنجیر پڑی ہے
یوں ہی تو نہیں بیٹھ گئے جھاڑ کے دامن
محرومیٔ تقدیر سے امید بڑی ہے
دو دن کی محبت نے دی یہ ہستیٔ جاوید
اک پل بھی نہیں کٹتی ابھی عمر پڑی ہے
یوں ہم نے نکالی ہے تری راہ ملاقات
یوں ہجر ترے دید کی برکت کی گھڑی ہے
ہر صبح تری چشم فسوں ساز کا غمزہ
ہر شام ترے لب سے ہنسی پھوٹ پڑی ہے
دن ہے تو ہے مہکا ترے رخسار کا غازہ
شب ہے تو تری مانگ ستاروں سے جڑی ہے