تھا بھلانا جنہیں پھر بھی وہی غم یاد آئے
تھا بھلانا جنہیں پھر بھی وہی غم یاد آئے
ہم ملے بھی تو زمانے کے ستم یاد آئے
کار دنیا میں نہ شبنم ہے نہ عنبر نہ گلاب
دہر دیکھا تو تری زلف کے خم یاد آئے
یاد کر کے تمہیں رونے کا زمانہ بھی گیا
آج رویا ہوں تو سمجھا ہوں کہ تم یاد آئے
بھر کے جھیلوں کو چلا جاتا ہے ساون جیسے
اس طرح یاد ہے وہ شخص جو کم یاد آئے
یہ تو سچ ہے تھا مرے لب کے قریں اور گلاب
یہ بھی سچ ہے مجھے اس وقت بھی تم یاد آئے