قاضی سلیم کی نظم

    مکتی

    گرجتی ٹوٹ کر گرتی گھٹائیں آسمانوں سے مسلسل سنگ باری نوحہ گر دیوار و در زخمی چھتیں شیشوں پہ پانی قطرہ قطرہ پھیلتا بڑھتا پھسلتی ٹوٹتی ننھی لکیریں جو تھکے ہاتھوں کی ریکھاؤں کی صورت نت نرالے روپ بھرتی ہیں خلا دل کا ذرا سی دیر بھی خالی نہیں ہوتا اسے جو بھی میسر ہو وہ بھر لیتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    نظم کہنے کے بعد

    لو میں ایک اکائی ہوں پتھر کے ٹکڑے کی طرح ایک اکائی پتھر کی تحریریں دیکھو کتنی دھاریں لہریں بیچ بھنور جیسے طوفانی سمندر کی نبضیں چلتے چلتے تھم جائیں جیسے سمندر مر جائے

    مزید پڑھیے

    رستگاری

    زخم پھر ہرے ہوئے پھر لہو تڑپ تڑپ اٹھا اندھے راستوں پہ بے تکان اڑان کے لیے بند آنکھ کی بہشت میں سب دریچے سب کواڑ کھل گئے اور پھر اپنی خلق کی ہوئی بسیط کائنات میں دھند بن کے پھیلتا سمٹتا جا رہا ہوں میں خدائے لم یزل کے سانس کی طرح میرے آگے آگے اک ہجوم ہے جس کو جو بھی نام دے دیا وہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    کہو کچھ تو کہو

    کہو شاید ہمارے گوشت کے اندر لہو کے برقیوں میں اور دھمکتی دھمنیوں میں آنکھ بن کر اب بھی کوئی جاگتا ہے وہی سچائیوں کی قبر کا آسیب اندھے آئنوں کے عکس کو کوندا ہمیشہ کے سمندر کا بلاوا موت کی سانسوں کا لہرا بھیک کا کاسہ کچھ ایسا جس کی شاید اک چھون سے ہماری خودکشی قربانیوں کا نام پاتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3