مکتی
گرجتی ٹوٹ کر گرتی گھٹائیں آسمانوں سے مسلسل سنگ باری نوحہ گر دیوار و در زخمی چھتیں شیشوں پہ پانی قطرہ قطرہ پھیلتا بڑھتا پھسلتی ٹوٹتی ننھی لکیریں جو تھکے ہاتھوں کی ریکھاؤں کی صورت نت نرالے روپ بھرتی ہیں خلا دل کا ذرا سی دیر بھی خالی نہیں ہوتا اسے جو بھی میسر ہو وہ بھر لیتا ہے ...