قاضی سلیم کی نظم

    نئی نسل

    عمر اس گپھا میں رینگ آئی ہے جہاں کوئی خار کوئی کنکری نہیں سوندھی سوندھی گیلی گیلی باس ہے خدا کی نرم نرم چھاؤں ہے موت کی مٹھاس ہے خدا کی نرم نرم چھاؤں ہے ہزار بار لڑ چکا ہوں ایک ایک خواب کے لیے ہمارے درمیاں جنگ ہو چکی ہے آج جب مرے لیے صلح کی گھڑی ہے پھر کشاکش حیات کا نیا سبب کھڑا نہ ...

    مزید پڑھیے

    تم اگر رکتے

    ریل گزری دندناتی چیخ برماتی اک ہمکتا مسکراتا پھول تھامے ہاتھ کی ہلکی سی جنبش (سلام آخری) چاقوؤں کی دھار پیشانی میں دھنس کر رہ گئی روز و شب معمول کے سب سائبانوں میں دراڑیں پڑ گئیں پھن اٹھائے پٹریوں کے ناگ بل کھانے لگے سرخ انگارے بجھے سبز زہری جھنڈیاں لہرا گئیں کھولتا جلتا لہو ...

    مزید پڑھیے

    ہم وقت کے صحرا میں

    ہم وقت کے صحرا میں اڑتے ہوئے بادل ہیں کس وقت ملیں کب تک ہم ساتھ رہیں کیا ہو شاید کسی جھونکے سے ملنے کو ترس جائیں بہتر ہے یہیں آؤ اک ساتھ برس جائیں

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    ہزار جھلملاتے پیکر رستے پانی میں آڑی ترچھی جھمکتی بوچھار بن گئے ہر ایک دیوار اور در سے شجر شجر سے نکل نکل کر کھلی سڑک پر لہکتے گاتے قدم قدم پر دیے جلاتے حسین نظموں میں ڈھل رہا ہے نہ جانے کیا ہو اگر یہ عالم تمام اپنا نقاب الٹ دے نہ جانے کیا ہو جو سارے اسرار کھل چکے ہوں یہی بہت ...

    مزید پڑھیے

    ٹورسٹ

    ہمارے پاس کچھ نہیں جاؤ اب ہمارے پاس کچھ نہیں بیتے ست جگوں کی سرد راکھ میں اک شرار بھی نہیں داغ داغ زندگی پہ سوچ کے لباس کا ایک تار بھی نہیں دھڑک دھڑک دھڑک دھڑک جانے تھاپ کب پڑے ننگے وحشیوں کے غول شہر کی سڑک سڑک پہ ناچ اٹھیں مولی گاجروں کی طرح سر کٹیں برف پوش چوٹیوں پہ سیکڑوں ...

    مزید پڑھیے

    وائرس

    مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا زباں پہ یہ کسیلا پن کہاں سے آ گیا ذرا سی دیر کے لیے پلک جھپک گئی تو راکھ کس طرح جھڑی سنا ہے دور دیس سے کچھ ایسے وائرس ہمارے ساحلوں پہ آ گئے جن کے تابکار سحر کے لیے امرت اور زہر ایک ہیں اب کسی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں کسی دوا کا درد سے کوئی واسطہ نہیں ہم ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    جب میں نے تمہارا جسم چھوا مرے اندر کوئی اور تھا جس نے اور کسی کا جسم چھوا اوروں کی بیتاب چھون میں پھر مجھ جیسا پھر تم جیسا کوئی اور تھا جس نے اور کسی کا جسم چھوا

    مزید پڑھیے

    آزادگی

    وقت کا بوجھ پتھریلی چپ اونچے اونچے پہاڑ میں پہاڑوں کے دامن میں پھیلی ہوئی گھاس پر پتی پتی کی تحریر پڑھتا ہوں اسرار میں غرق ہوں دیر سے جھیل کی آنکھ جھپکی نہ سہمے ہوئے پر کہیں پھڑ پھڑائے نہ کلیاں ہی چٹکیں نہ پتے ہلے ہر گھنا پیڑ نروان کی آس میں گم ہے سوکھی ہوئی ٹہنیاں سب صلیبیں ...

    مزید پڑھیے

    میں نے دیکھا

    میں نے دیکھا درد کی شدت سے بے چین کسی ویرانے کی سمت چلا جاتا ہوں گھنے بنوں کے بعد کھلے میدانوں میں ریت ہی ریت ہے اور ہوا میں ریت کے ننھے ذرے جگمگ جگمگ تیر رہے ہیں کچھ آدھے پورے پیڑ ہیں حیوانی ڈھانچے سالم اور ادھورے سب چپ چاپ ہیں دور پہاڑی کے پیچھے نور کا لاوا ابل رہا ہے لاکھوں ...

    مزید پڑھیے

    ورثہ

    بیس صدیوں ہیولیٰ ہو تم بیس صدیوں کا پر اسرار ہیولیٰ جس پر صرف بے درد ہواؤں نے زباں پھیری تھی اب مرا ہاتھ ہے اور ہاتھ کی یہ زندہ حرارت شاید تم کو محسوس ہو بدلے ہوئے موسم کی طرح تم یہ سمجھو کہ کسی دھوپ کے ٹکڑے نے تمہیں روز کی طرح سے پھر چھیڑا ہے یا تھکا ماندہ پرندہ ہے جو آ بیٹھا ہے اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3