قاضی سلیم کی نظم

    آج کے بعد

    آج کے بعد اگر جینا ہے آج کا سب کچھ تج دینا ہے ایک جھلک میں ایک جھپک میں زخمی چھلنی اس پیکر کو اپنے لہو کی آگ میں جل جانے دو گل جانے دو ارمانوں سے باہر آؤ اپنے آپ سے آگے بڑھ جاؤ سیماؤں سے پار اتر کر دیکھو کیسی کھلی فضا ہے ہر شے میں جیسے آنے والی دنیاؤں کا بیج چھپا ہے بیجوں سے پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کچھ نہیں؟

    خیر کوئی ربط ہی نہیں وقت کی طویل ڈور نے بے ارادہ ایک کر دیا صبح و شام گھوم گھوم کر زمیں گرفت اور سخت اور سخت کر گئی جانے آج کیوں وہی دھاگے میری شاہ رگ میں دور تک دھنسے ہوئے وہ سرا ہی میں نے کھو دیا جس سے لوگ الجھے سلجھے تانے بانے کھول کر یوں الگ نکل گئے جیسے وقت کچھ نہیں وہ سارے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھتے دیکھتے

    چیونٹیاں کتنی روندی گئیں آخری سانس تک پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں سر اٹھاتی رہیں کتنا بے مدعا حوصلہ دیکھتے دیکھتے مٹ گیا رینگتی چیونٹیاں جلد کو چیر کر خون میں مل گئیں میرے اعصاب میں بجلیاں گھل گئیں اب میں کوئی اور ہوں ایک گھائل درندہ زخم ہی زخم ہیں چاہے اپنے ہوں یا دوسروں کے زخم ...

    مزید پڑھیے

    آخری ڈائری

    پندرہ روز علالت کے، ایسے گزرے جن میں باہم رابطہ نہ تھا پھیل گیا اک تنہا دن تب دوسرے تنہا دن سے ملا دھیرے دھیرے اینٹ پہ اینٹ جمی میرے چاروں طرف دیوار بنی پندرہ روز کے بعد کہیں یہ زنداں ٹوٹا واپس لوٹا اپنی دنیا میں سب کچھ ویسے ہی پڑا ہے جیسے چھوڑ گیا تھا میز اسی طرح ترچھی رکھی ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں کی پیغمبری

    بارہا ایسی تنہائیوں میں کہ جب تیرگی بول اٹھے ذائقہ موسموں کا زباں پر یکایک بدل جائے ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ شاید کوئی اور ہیں مگر کون؟ وقفۂ عمر میں کس نے سمجھا ہے سب موت ہی کو وصال اپنا کہتے ہیں سب موت کے منتظر ہیں میں نے اور صرف میں نے تیری سانسوں میں تیری سانسوں میں اپنا امڈتا ...

    مزید پڑھیے

    آئینے

    اور پھر رات کی بساط الٹ گئی مسافروں نے ایک سال کے پرانے چہرے پھینک کر نئے لگا لئے کتنے خوش نصیب ہیں جن کے پاس کوئی آئنہ نہیں جن کے پاس وقت صرف وقت ہے کوئی سلسلہ نہیں بھلا نہیں برا نہیں کتنے خوش نصیب ہیں ایک سال میں سب بدل گئے زمیں کی کوکھ تخم ریزیوں کی منتظر ہے پچھلی فصل کٹ گئی رات ...

    مزید پڑھیے

    دردمندی

    دیکھتے دیکھتے چیونٹیاں کتنی روندی گئیں آخری سانس تک پلٹ کر جھپٹنے کی امید میں سر اٹھاتی رہیں دیکھتے دیکھتے میرے اعصاب میں بجلیاں گھل گئیں رینگتی چیونٹیاں جلد کو چیر کر خون میں مل گئیں اب میں کوئی اور ہوں ایک گھائل درندہ کہ جس کے لیے زخم ہی زخم ہیں (چاہے اپنے ہوں یا دوسروں ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی سہی

    چلو یوں ہی سہی تم سب دریچے بند کر دو وہ ہوائیں روک دو جو خلا سینے کا بھرنے کے لیے آتی ہیں سانسیں تمہاری ساتھ لاتی ہیں تو ''لو'' ایسے سمے میری رگوں میں خون کے بدلے وہ پانی ہے جو ارماں سادھ لینے والے پیڑوں کا مقدر ہے مرے طوفان کی موجیں کسی برفیلے چوٹی کی وہ تحریریں ہیں جن کو اب فقط ...

    مزید پڑھیے

    یاد

    نرم ریشم کی طرح بنی خامشی جا بہ جا پھر مسکنے لگی جسم کے آشیانوں سے طائر اڑے گرم تازہ لہو میں نہا کر پروں کو جھٹکنے لگے دیر تک رنگ اڑتا رہا

    مزید پڑھیے

    بے ضمیری

    زمیں گھومی ہوا بدلی چلو موسم بدلتا ہے سلیمؔ اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ وہ دیکھو چیونٹیوں کے پر نکل آئے کیسے اڑتی پھر رہی ہیں آج شان بے نیازی سے کہ جیسے مطمئن ہیں مکڑیوں کی سرفرازی سے سلیمؔ اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ تمہاری دور کی آواز کیسے گونج بن کر پلٹ آئی ہے جیسے بستیوں کے سبھی گھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3