کہو کچھ تو کہو
کہو شاید ہمارے گوشت کے اندر
لہو کے برقیوں میں
اور دھمکتی دھمنیوں میں
آنکھ بن کر اب بھی کوئی جاگتا ہے
وہی سچائیوں کی قبر کا آسیب
اندھے آئنوں کے عکس کو کوندا
ہمیشہ کے سمندر کا بلاوا
موت کی سانسوں کا لہرا
بھیک کا کاسہ
کچھ ایسا جس کی شاید اک چھون سے
ہماری خودکشی قربانیوں کا نام پاتی ہے
کہو جو کچھ بھی ہے
جیسا بھی ہے
وہ آج زندہ ہے
کہو کچھ تو کہو وہ جھوٹ ہی پھر آج دہراؤ