Qazi Abdur Rauf Anjum

قاضی عبدالرؤف انجم

  • 1937

قاضی عبدالرؤف انجم کی غزل

    انا جب سان چڑھتی ہے تو جذبے کاٹ دیتی ہے

    انا جب سان چڑھتی ہے تو جذبے کاٹ دیتی ہے دلوں میں جب اتر جاتی ہے رشتے کاٹ دیتی ہے جلا دیتی ہے الفت کی وفا کی ساری تعمیریں ہوس کی آگ برسوں کے تقاضے کاٹ دیتی ہے مقرر دل نشیں لہجہ بھی اپنائے تو کیا کہنا ذرا سی بات لوگوں کے کلیجے کاٹ دیتی ہے عدالت کی کسوٹی پر کسا جاتا ہے جب مجرم قلم ...

    مزید پڑھیے

    اخلاص کی قدروں کا سوالی ہے تو لا ہاتھ

    اخلاص کی قدروں کا سوالی ہے تو لا ہاتھ ہم لوگ اسی شہر کے باسی ہیں ملا ہاتھ لوگوں نے سکوں ڈھونڈ لیا شہر میں جا کر ہم ڈھونڈنے جاتے ہیں تو آتی ہے بلا ہاتھ دریا کے تلاطم سے تڑپنے کی ادا سیکھ جینا ہے تو منجدھار کے اندر بھی ہلا ہاتھ رخصت ہوئی فرعون کے محلوں سے خدائی نکلا جو گریبان سے ...

    مزید پڑھیے

    رگ جاں سے لپٹ کر سینۂ بسمل میں رہتا ہے

    رگ جاں سے لپٹ کر سینۂ بسمل میں رہتا ہے وہ بت چہرہ سہی لیکن ہمارے دل میں رہتا ہے برتنے کا سلیقہ ہو اگر تو بات ہے بنتی زباں کا حسن تو الفاظ کی جھلمل میں رہتا ہے سزا کا خوف تو گمراہ کر دیتا ہے منصف کو ہمارا خون ناحق دیدۂ قاتل میں رہتا ہے ہماری آنکھ میں رہتا ہے اس کا حسن کچھ ...

    مزید پڑھیے

    یاد گزرے ہوئے لمحوں کی سزا ہو جیسے

    یاد گزرے ہوئے لمحوں کی سزا ہو جیسے پر سکوں جھیل میں کنکر سا گرا ہو جیسے دل نے بھولے سے ترا نام لیا ہے جب بھی بند کمرے میں کوئی ساز بجا ہو جیسے لمس پا کے وہ بکھرنا تری رعنائی کا شاخ نے ساتھ ہواؤں کا دیا ہو جیسے مسکراہٹ ہے کہ قاصد کوئی پیغام لیے اوٹ میں بند دریچے کی کھڑا ہو ...

    مزید پڑھیے