اخلاص کی قدروں کا سوالی ہے تو لا ہاتھ

اخلاص کی قدروں کا سوالی ہے تو لا ہاتھ
ہم لوگ اسی شہر کے باسی ہیں ملا ہاتھ


لوگوں نے سکوں ڈھونڈ لیا شہر میں جا کر
ہم ڈھونڈنے جاتے ہیں تو آتی ہے بلا ہاتھ


دریا کے تلاطم سے تڑپنے کی ادا سیکھ
جینا ہے تو منجدھار کے اندر بھی ہلا ہاتھ


رخصت ہوئی فرعون کے محلوں سے خدائی
نکلا جو گریبان سے اک نور بھرا ہاتھ


جینے کی تمنا تھی کہ تھا آخری پیغام
آتا تھا نظر ڈوبنے والے کا اٹھا ہاتھ


لگتا ہے کہ مابین ہے میلوں کی مسافت
تھا اس کا مرا فاصلہ بس ہاتھ سوا ہاتھ


تشکیک کے گرداب ڈبوتے ہیں الٰہی
ڈھونڈے ہے ترے ہاتھ کو ایسے میں مرا ہاتھ


انجمؔ یہاں صف آرا ہیں جادوئی سپنولے
جینا ہے تو کر سحر شکن ایک عصا ہاتھ