رگ جاں سے لپٹ کر سینۂ بسمل میں رہتا ہے
رگ جاں سے لپٹ کر سینۂ بسمل میں رہتا ہے
وہ بت چہرہ سہی لیکن ہمارے دل میں رہتا ہے
برتنے کا سلیقہ ہو اگر تو بات ہے بنتی
زباں کا حسن تو الفاظ کی جھلمل میں رہتا ہے
سزا کا خوف تو گمراہ کر دیتا ہے منصف کو
ہمارا خون ناحق دیدۂ قاتل میں رہتا ہے
ہماری آنکھ میں رہتا ہے اس کا حسن کچھ ایسے
کوئی معشوق جیسے پردۂ محمل میں رہتا ہے
رکاوٹ کیوں بنے آزاد قوموں کی ترقی میں
وہ اک اندیشہ جو حالات مستقبل میں رہتا ہے
مسافر جس کو اپنے عزم کا احساس ہو جائے
کبھی رستے میں رہتا ہے کبھی منزل میں رہتا ہے