قاسم یعقوب کی غزل

    میسر آج سروکار سے زیادہ ہے

    میسر آج سروکار سے زیادہ ہے دیے کی روشنی مقدار سے زیادہ ہے یہ جھانک لیتی ہے اندر سے آرزو خانہ ہوا کا قد مری دیوار سے زیادہ ہے گھٹن سے ڈرتے میں شہر ہوا میں آیا تھا مگر یہ تازگی درکار سے زیادہ ہے یونہی میں آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتا ہوں مرا قدم مری رفتار سے زیادہ ہے میں روز گھر کی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ آنسو رو لینے کے بعد نذر خواب ہو گیا

    کچھ آنسو رو لینے کے بعد نذر خواب ہو گیا میں تم کو یاد کرتے کرتے گہری نیند سو گیا رگیں لکیریں ہو گئیں مسام نقطے بن گئے بدن تمہاری یاد میں حروف نظم ہو گیا میں بھول آیا کھول کر کتاب عمر پڑھتے وقت سحاب غم جو گزرا کل ورق ورق بھگو گیا اب اس کے رتجگوں نے بھی پہن لیا غلاف نیند جو چلہ کش ...

    مزید پڑھیے

    کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے

    کس مشقت سے مجھے جسم اٹھانا پڑا ہے شام ہوتے ہی ترے شہر سے جانا پڑا ہے میں تجھے ہنستا ہوا دیکھ کے یہ بھول گیا کہ مرے چاروں طرف روتا زمانہ پڑا ہے جمع پونجی ہے مرے جسم میں کچھ آنسوؤں کی یہ مرا دل تو نہیں ایک خزانہ پڑا ہے دیر تک باغ کے کونے میں کوئی آیا نہیں بات کرنے کے لیے خود کو ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنا بوجھ اٹھاؤ یہاں سے کوچ کرو

    خود اپنا بوجھ اٹھاؤ یہاں سے کوچ کرو زمیں پہ پاؤں دھرو آسماں سے کوچ کرو فقط اداسی مرا دکھ بتا نہیں پاتی اے میرے آنسوؤ درد نہاں سے کوچ کرو ہے اس کے عکس گریزاں کی جلوہ آرائی اب اپنے گھر میں رہو آستاں سے کوچ کرو یہ کیا کہ ایک جگہ پر ہی عمر گزرے گی رہین جسم اتارو جہاں سے کوچ کرو چلو ...

    مزید پڑھیے

    سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں

    سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں بونا آتا ہے گل آرائی مجھے آتی نہیں سر اٹھاتا ہوں تو تا حد نظر پانی ہے ڈوبنا چاہوں تو گہرائی مجھے آتی نہیں ہنستا ہوں کھیلتا ہوں چیختا ہوں روتا ہوں اپنے کردار میں یک جائی مجھے آتی نہیں روزمرہ میں لپیٹی ہوئی بوسیدہ فضا اپنے اطراف سے ابکائی مجھے ...

    مزید پڑھیے

    با ثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں

    با ثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں اپنی تقدیر میں بارانی علاقہ ہوں میں حدت لمس مجھے آتش احساس لگا برف آلود ہواؤں کا جمایا ہوں میں میرے کردار کو اس دور نے سمجھا ہی نہیں قصۂ عہد گذشتہ کا حوالہ ہوں میں عمر ہے رسی پہ چلتے ہوئے شعلے کی طرح کھیل میں گیند پکڑتا ہوا بچہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے

    کسی ترتیب میں رکھی نہ بکھرنے دی ہے میں نے یہ زندگی بے کار گزرنے دی ہے تنگ کرتی ہے بہت تشنہ لبی ہم کو بھی سانس بھرتا ہے اگر پیاس تو بھرنے دی ہے اتنی بے رحم مسیحائی مرے پاس رہی زندہ کر دی کوئی خواہش کبھی مرنے دی ہے کوئی گوہر تری آئندہ کی لہروں میں نہیں ایک دریا کو خبر پچھلے پہر نے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا

    کچھ اور بھی زیادہ سنور کے دکھاؤں گا اے زندگی ترے لیے مر کے دکھاؤں گا طغیانیاں تو رخت سفر ہیں مرے لیے ساحل پہ ایک روز اتر کے دکھاؤں گا کب تک سمیٹ رکھوں شرار جنوں کو میں جنگل کی آگ ہوں تو بکھر کے دکھاؤں گا خواہش سے کب یہ ہاتھ فلک تک پہنچتا ہے جو کہہ رہا ہوں میں اسے کر کے دکھاؤں ...

    مزید پڑھیے

    دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا

    دست ہنر جھٹکتے ہی ضائع ہنر گیا چارہ گری نہیں رہی جب چارہ گر گیا ہستی سے مل گیا مجھے کچھ نیستی کا فہم صحرا وہاں ملا جہاں دریا اتر گیا کیا ہو سکے حساب کہ جب آگہی کہے اب تک تو رائیگانی میں سارا سفر گیا وہ ایک جذبہ جس نے جمال آشنا کیا منظر ہٹا تو جسم کے اندر ہی مر گیا شاید سر حیات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2