چہرے کی گرد
گاڑیوں کے بہاؤ میں بہتے ہوئے شور کی گرد میرے دھواں بنتے چہرے پہ جمنے لگی ہے میں پہلے ہی جمتے ہوئے خون کی گلتی سڑتی ہوئی خواہشوں کی کراہت سے سانسوں کی قے کرنے کی ایک سعی مسلسل میں مصروف ہوں میرا دل تتلیوں کی رفاقت کی ضد کر رہا ہے مگر میں اسے ہڈیوں سے تنے جال سے کیسے باہر نکالوں کڑی ...