قاسم یعقوب کی غزل

    میں مطمئن نہ تھا کردار سے کہانی میں

    میں مطمئن نہ تھا کردار سے کہانی میں سو اپنی عمر گزرنے دی رائیگانی میں بلاد حال سجایا ہے کوئے رفتہ میں میں اپنے پیش رؤں کی ہوں ترجمانی میں یہ کیا کہ بیٹھا ہے دریا کنار دریا پر میں آج بہتا ہوا جا رہا ہوں پانی میں ہاں آخرش ابد اشتراک خاک ملا گو ہم رہے سفر آسمان فانی میں یہ شعر زر ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری

    شکستہ گھر میں کوئی چیز بھی نہیں پوری کہیں ہوا تو کہیں روشنی نہیں پوری میں تجھ کو دیکھ تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا تو ہے مگر تری موجودگی نہیں پوری انا سنبھالتے دل کھو دیا ہے میں نے وہیں تمہارے سامنے سے واپسی نہیں پوری میں سوچتا ہوں کہ اب کوزہ گر بدل ہی لوں جو مل رہی ہے مجھے بہتری ...

    مزید پڑھیے

    میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے

    میں نے بھی سینہ ہوا دار بنا رکھا ہے آنکھ کو روزن دیوار بنا رکھا ہے پیڑ نے روٹھے ہوئے موسم گل کے غم میں شاخ کو دست عزا دار بنا رکھا ہے سنگ خواہش کبھی دریا کے حوالے نہ کیے پھینکنے کے لیے کہسار بنا رکھا ہے میں نے کاغذ کی زرہ جسم پہ پہنی ہوئی ہے اور قلم ہاتھ میں تلوار بنا رکھا ...

    مزید پڑھیے

    تجھے چھو کر بھی مری روح میں شدت نہیں ہے

    تجھے چھو کر بھی مری روح میں شدت نہیں ہے دل لگی سی ہے یہ دراصل محبت نہیں ہے اپنے اندر ہی گھٹا رہنے لگا ہوں اب تو تیرے غم میں ابھی رونے کی نزاکت نہیں ہے میرے جذبوں میں مری روح کی پاکیزگی ہے جو بھی لکھتا ہوں مجھے اس کی ملامت نہیں ہے در امکان کی دستک مجھے بھیجی گئی ہے میری قسمت میں ...

    مزید پڑھیے

    وادئ غم میں تیرے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں

    وادئ غم میں تیرے ساتھ ساتھ بھٹک رہا ہوں میں تجھ کو مری تلاش ہے اور تجھے ڈھونڈتا ہوں میں ہنستا ہوں بولتا بھی ہوں روتا ہوں سوچتا بھی ہوں پورا مزاج آدمی سب کو دکھا رہا ہوں میں اتنا ہجوم آدمی ہے کہ حساب میں نہیں پھر بھی گلہ ہے آنکھ سے کچھ نہیں دیکھتا ہوں میں دیکھتا ہوں میں واقعات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2