Qasim Raza Mustafai

قاسم رضا مصطفائی

  • 1998

قاسم رضا مصطفائی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    ایک دو تین نہیں سارے قبائل کر لے

    ایک دو تین نہیں سارے قبائل کر لے کوئی منطق ہے ترے پاس جو قائل کر لے جرم ثابت ہے معافی تو نہیں ہو سکتی پیش کرنے ہیں اگر تو نے دلائل کر لے صف اول کا سپاہی ہوں سو مرنے سے رہا اب تو آیا ہے تو یوں کر مجھے گھائل کر لے قحط ہوں اور ترے شہر میں پڑ سکتا ہوں جتنے کر سکتا ہے مٹھی میں وسائل کر ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے مرکز و محور سے دور ہٹتے ہوئے

    خود اپنے مرکز و محور سے دور ہٹتے ہوئے پہنچ چکا ہوں کہاں دائرے بدلتے ہوئے بجھے ہوؤں سے بھی ملتا ہے درس مایوسی ہماری سمت نہ دیکھیں چراغ جلتے ہوئے وہ خطہ خشک تھا تر ہوتے میں نے دیکھا ہے وہ آنکھ سرخ ہوئی پیرہن بدلتے ہوئے میں اس لیے بھی کھڑا تھا جھکا کے سر اپنا تو شرمسار نہ ہو بات ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب ہنسنے مسکرانے سے

    بے سبب ہنسنے مسکرانے سے رنج چھپ جائے گا زمانے سے وقت کی واپسی نہیں ہوتی گھڑی کی سوئیاں گھمانے سے آگہی کا مرض لگا ہم کو اک محبت کے کارخانے سے کتنے منظر بدل گئے ہیں دوست گھر کی دیوار کو گرانے سے ہم پہ واجب تھا احترام اس کا اس کو نسبت تھی اک گھرانے سے

    مزید پڑھیے

    اب ہجر نبھانے کی ترکیب الگ ہوگی

    اب ہجر نبھانے کی ترکیب الگ ہوگی دکھ سارے وہی ہوں گے ترتیب الگ ہوگی ویسے تو زمانے میں لاکھوں ہی مثالیں ہیں ہم سولی چڑھیں گے جب تقریب الگ ہوگی کچھ یار کی بستی میں آنکھوں سے اجالے ہیں جگ مگ کو ستاروں کی تنصیب الگ ہوگی ہم خانہ بدوشوں نے بس اس لیے ہجرت کی سوچا تھا کہ گاؤں کی تہذیب ...

    مزید پڑھیے

    تاریکیوں میں دیکھتا ہوں روز خون خواب

    تاریکیوں میں دیکھتا ہوں روز خون خواب شب کو سہارا دیتا شکستہ ستون خواب ہر آنکھ کے لیے نہیں ہوتی سکوں کی نیند ہر نیند کے لیے نہیں ہوتا سکون خواب اپنی خوشی میں کس کو بتاؤں کہ ان دنوں اک شخص آ کے ملتا ہے مجھ کو درون خواب پرواز دیکھتا تھا ہماری ستارہ ساز ہم کو گئے دنوں میں بہت تھا ...

    مزید پڑھیے

تمام