خود اپنے مرکز و محور سے دور ہٹتے ہوئے

خود اپنے مرکز و محور سے دور ہٹتے ہوئے
پہنچ چکا ہوں کہاں دائرے بدلتے ہوئے


بجھے ہوؤں سے بھی ملتا ہے درس مایوسی
ہماری سمت نہ دیکھیں چراغ جلتے ہوئے


وہ خطہ خشک تھا تر ہوتے میں نے دیکھا ہے
وہ آنکھ سرخ ہوئی پیرہن بدلتے ہوئے


میں اس لیے بھی کھڑا تھا جھکا کے سر اپنا
تو شرمسار نہ ہو بات سے مکرتے ہوئے


بغل میں خشک سبوچہ ہے اور عمر رضاؔ
گزر گئی ہے زمانے کا پانی بھرتے ہوئے