Qamar Raza Shahzad

قمر رضا شہزاد

قمر رضا شہزاد کی غزل

    کسی پہ اپنا کمال ظاہر نہیں کرے گا

    کسی پہ اپنا کمال ظاہر نہیں کرے گا وہ فتح سے پہلے چال ظاہر نہیں کرے گا جلو میں لے کر چلے گا لشکر مگر عدو پر وہ اپنا جلوہ جلال ظاہر نہیں کرے گا اسے کبھی گفتگو کی مہلت نہیں ملے گی جو آج بھی دل کا حال ظاہر نہیں کرے گا یہ دل کہ شفاف آئنہ ہی سہی مگر اب ترا مکمل جمال ظاہر نہیں کرے ...

    مزید پڑھیے

    تری تنہائی کا دکھ آشکارا ہو رہا ہے

    تری تنہائی کا دکھ آشکارا ہو رہا ہے بچھڑتی ساعتوں میں تو ہمارا ہو رہا ہے حساب دوستاں در دل اگر ہے تو نہ جانے یہاں اب کیا مرتب گوشوارا ہو رہا ہے عذاب مصلحت کی قید میں ہیں لوگ اور تو سمجھتا ہے یہاں سب کا گزارا ہو رہا ہے کہیں سے اک کڑی گم ہے ہماری گفتگو میں بظاہر تو یہ دکھ ترسیل ...

    مزید پڑھیے

    نہ اپنے آپ کو اس طرح در بدر رکھتے

    نہ اپنے آپ کو اس طرح در بدر رکھتے پلٹ کے آتے اگر ہم بھی کوئی گھر رکھتے عجیب وحشت شب تھی کہ شام ڈھلتے ہی تمام لوگ منڈیروں پر اپنے سر رکھتے جو اپنی فتح کے نشے میں چور تھے وہ بھلا سلگتے شہر کے منظر پہ کیا نظر رکھتے یہ اور بات کہ سرسبز تھے بہت لیکن ہم ایسے پیڑ نہ بن پائے جو ثمر ...

    مزید پڑھیے

    نفی کو قریۂ اثبات سے نکالتا ہوں

    نفی کو قریۂ اثبات سے نکالتا ہوں میں اپنی ذات تری ذات سے نکالتا ہوں کشید کرتا ہوں میں دن کی آگ سے ٹھنڈک اور اپنی دھوپ کہیں رات سے نکالتا ہوں تو ایک رخ پہ ہے محو کلام لیکن میں کئی معانی تری بات سے نکالتا ہوں دعا کے ہالے بنا کر ترے جمال کے گرد تجھے میں گردش و آفات سے نکالتا ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے وعدہ و پیمان بھی نہیں میرا

    کسی سے وعدہ و پیمان بھی نہیں میرا یہاں سے لوٹنا آسان بھی نہیں میرا میں لخت لخت ہوا آسماں سے لڑتے ہوئے مگر یہ خاک پہ احسان بھی نہیں میرا میں صرف اپنی حراست میں دن گزارتا ہوں مرے سوا کوئی زندان بھی نہیں میرا سکوت شب میں تری چشم نیم وا کے سوا کوئی چراغ نگہبان بھی نہیں میرا دھری ...

    مزید پڑھیے

    انا کا نشہ خودی کا خمار ٹوٹتا ہے

    انا کا نشہ خودی کا خمار ٹوٹتا ہے محبتوں میں خود اپنا حصار ٹوٹتا ہے کوئی تو ہے جو در خیمۂ محبت پر جبیں جھکائے بصد افتخار ٹوٹتا ہے عجیب نشۂ احساس کی گرفت میں ہوں ترے قریب جو آؤں خمار ٹوٹتا ہے میں اس لہو میں سے ہوں جس کا ایک اک قطرہ فصیل ظلم پہ دیوانہ وار ٹوٹتا ہے

    مزید پڑھیے

    یہ جو مجھ کو گرا دیا گیا ہے

    یہ جو مجھ کو گرا دیا گیا ہے آپ کو راستہ دیا گیا ہے کوئی تیری مثال ہی نہ رہے آئنہ بھی ہٹا دیا گیا ہے دکھ تو یہ ہے ترے بچھڑنے کا دکھ آنسوؤں میں بہا دیا گیا ہے ایک دل ہی تھا ضو فشاں سر شام یہ دیا بھی بجھا دیا گیا ہے مجھ کو اس دشت عشق میں شہزادؔ قیس کا مرتبہ دیا گیا ہے

    مزید پڑھیے

    لرزتے ٹوٹتے گرتے ہوئے جہاں سے نکل

    لرزتے ٹوٹتے گرتے ہوئے جہاں سے نکل زیادہ خوف زدہ ہے تو اس مکاں سے نکل ہمارے دل کا تعلق نہیں زمانے سے سو اپنی خواہش دنیا اٹھا یہاں سے نکل ترے جمال کی لو تیرے بعد رہ جائے دیے جلاتا ہوا اس جہان جاں سے نکل میں رب کے نور سے محو کلام ہوں سر شام سوئے چراغ دعا تو بھی درمیاں سے نکل اب اس ...

    مزید پڑھیے

    علم بدست کہیں آئنہ بکف ہوں میں

    علم بدست کہیں آئنہ بکف ہوں میں ترے خلاف ہر اک سمت صف بہ صف ہوں میں مجھے تلاش نہ کر تو کہ اک زمانہ ہوا کتاب عشق کے ہر باب سے حذف ہوں میں ہزار بھیس بدلتا رہوں مگر اس پار کسی چمکتی ہوئی آنکھ کا ہدف ہوں میں بدلتا رہتا ہوں ہر لمحہ اپنے خد و خال کہیں گہر کہیں دریا کہیں صدف ہوں میں ڈٹا ...

    مزید پڑھیے

    ترے آسماں سے عذاب کیوں نہیں ٹوٹتا

    ترے آسماں سے عذاب کیوں نہیں ٹوٹتا مری نیند اور مرا خواب کیوں نہیں ٹوٹتا ترا ذکر کرتا ہوں صبح و شام نماز میں یہ طلسم اجر و ثواب کیوں نہیں ٹوٹتا مرے خد و خال بکھرتے کیوں نہیں راہ میں ترے آئینے کا سراب کیوں نہیں ٹوٹتا ترے لفظ لفظ کی منتظر ہیں سماعتیں لب حسن تیرا حجاب کیوں نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4