تری تنہائی کا دکھ آشکارا ہو رہا ہے

تری تنہائی کا دکھ آشکارا ہو رہا ہے
بچھڑتی ساعتوں میں تو ہمارا ہو رہا ہے


حساب دوستاں در دل اگر ہے تو نہ جانے
یہاں اب کیا مرتب گوشوارا ہو رہا ہے


عذاب مصلحت کی قید میں ہیں لوگ اور تو
سمجھتا ہے یہاں سب کا گزارا ہو رہا ہے


کہیں سے اک کڑی گم ہے ہماری گفتگو میں
بظاہر تو یہ دکھ ترسیل سارا ہو رہا ہے


اگر کوئی نہیں ہے آئینے کے پار شہزادؔ
تو پھر یہ کون ہم پر آشکارا ہو رہا ہے