Qamar Jameel

قمر جمیل

قمر جمیل کی نظم

    پہاڑی کی آخری شام

    ایشیا کی اس ویران پہاڑی پر موت ایک خانہ بدوش لڑکی کی طرح گھوم رہی ہے میری روشنی اور انار کے درختوں میں قزاقوں کے چاقو چمکتے ہیں اور سر پر وہ چاند ہے جو اس پہاڑی کا پہلا پیغمبر ہے اس پہاڑی پر فاطمہ رہتی ہے اس کے کپڑوں میں وہ کبوتر ہیں جو کبھی اڑ نہیں سکتے خدا نے ہمیں ایک غار میں بند ...

    مزید پڑھیے

    میں بلندیوں پر جل رہا ہوں

    میں اپنے گھر میں دیئے کی طرح جلنا چاہتا تھا مگر اب ایک فلیٹ میں بلب کی صورت جل رہا ہوں اگر کوئی مجھے بجھانا چاہتا ہے تو میرے بچے پھر مجھے جلا دیتے ہیں

    مزید پڑھیے

    شہزادے کی موت

    یہ سماں اور رات کی جادوگری چاند کا لے کر چلی ہاتھوں میں تاج کچھ طلسمی لوگ پتھرائے ہوئے کچھ طلسمی لڑکیاں جیسے تمناؤں کے مور جن سے آ کر کھیلتی ہے رات کی نیلم پری اور جا کر ناچتی ہے شام تک ہر قدم پر ایک شہزادے کی موت

    مزید پڑھیے

    المیہ کھیل کا ایک کردار

    جب میں بچہ تھا راوی کے گالوں سے ڈرتا تھا اب دشمن کی چالوں سے ڈرتا ہوں میرے بچپن میں آگ کی اطراف دراوڑ لڑکیاں گیت گاتی تھی اور اب میں ایک ہوٹل میں بینڈ بجاتا ہوں اور لومڑی کی کھال سے اپنا لباس سیتا ہوں

    مزید پڑھیے

    بن مانس

    بن مانس کے کالے بدن پر ہیرے چمکتے ہیں بن مانس کی اجلی ہنسی سے بچے ڈرتے ہیں بن مانس مجھ پر چھلکے پھینکتا رہتا ہے برکھا آتی ہے اور دانے بوتی ہے جب برکھا آتی ہے اور دانے بوتی ہے میں اپنے دھیان کے جنگل میں چھپ جاتا ہوں بن مانس کے کالے بدن پر ہیرے چمکتے ہیں بن مانس کی اجلی ہنسی سے بچے ...

    مزید پڑھیے

    ویرانی

    شہر کی گلیاں گھوم رہی ہیں میرے قدم کے ساتھ ایسے سفر میں اتنی تھکن میں کیسے کٹے گی رات خواب میں جیسے گھر سے نکل کے گھوم رہا ہو کوئی رات میں اکثر یوں بھی پھری ہے تیرے لیے اک ذات چند بگولے خشک زمیں پر اور ہوائیں تیز اس صحرا میں کیسی بہاریں کیسی بھری برسات دھوم مچائیں بستی بستی سوچ ...

    مزید پڑھیے

    سورج سے آگے اک جنگل ہے

    سورج سے آگے اک جنگل ہے میں اس جنگل کا دیا ہوں چاند سے آگے میرا گھر ہے میں اس گھر کا دیا ہوں سورج سے آگے اک جنگل ہے میں اس جنگل کا دیا ہوں میں کیا جانوں کس جنگل میں میرا گھر ہے سوئی ہوئی چڑیا سے پوچھو رات کی کتنی گھڑیاں باقی ہیں میں کیا جانوں کس جنگل میں میرا گھر ہے سورج سے آگے اک ...

    مزید پڑھیے

    کپاس کا پھول

    تم مجھے قتل نہ کرو میں خود کئی ٹکڑوں میں بٹ جاؤں گا میرا ایک ٹکڑا کپاس کا پھول بن جائے گا اور دوسرا وہ آگ جو کپاس کے پھول سے روشن ہوتی ہے تم مجھے قتل نہ کرو میں خود کئی ٹکڑوں میں بٹ جاؤں گا میرا ایک ٹکڑا دریا بن جائے گا اور دوسرا وہ چاند جو اس دریا میں ڈوب جاتا ہے ہاں مجھے قتل نہ ...

    مزید پڑھیے

    قصۂ چہار خواب

    اول حلقۂ یاراں میں کنعاں رات کے پچھلے پہر بستیوں سے دور نہروں کے کنارے خیمہ زن وہ درختوں کی ہواؤں میں ستارے خیمہ زن بستیوں سے دور صحرا کے نظارے خیمہ زن حلقۂ یاراں میں کتنے نازنیں نازک کمر دوم رقص کے ہنگام کتنے بازوؤں کا پیچ و خم دیکھنے والوں کی نظروں میں اتر آنے کو ہے یہ بدن کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2