Qaleel Jhansvi

قلیل جھانسوی

قلیل جھانسوی کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    جب وہ جھگڑے مٹا چکے ہوں گے

    جب وہ جھگڑے مٹا چکے ہوں گے خون کتنا بہا چکے ہوں گے چاند کا زخم دیکھنے والے شمعیں کتنی بجھا چکے ہوں گے کل کے سپنوں کو پالنے والو کل تو سپنے رلا چکے ہوں گے ان کے تم دوست ہو کہ دشمن ہو وہ جو مقتل میں جا چکے ہوں گے بس قلیلؔ ان کی یاد باقی ہے دشمنی جو نبھا چکے ہوں گے

    مزید پڑھیے

    مجھے یاد آ رہا ہے کوئی آنسوؤں میں ڈھل کے

    مجھے یاد آ رہا ہے کوئی آنسوؤں میں ڈھل کے کوئی آ گیا یہاں بھی مرے ساتھ ساتھ چل کے اک پل قرار آتا دو دن کی زندگی میں بے چینیاں ہی ملتیں صورت بدل بدل کے ہم مفلسوں کی جھولی خالی ہے دل بھرے ہیں سمجھا کے راہزن کو ہم آئے بچ نکل کے کچھ تو قلیلؔ تم بھی اپنا خیال رکھنا مقتل میں ڈھل گئے ...

    مزید پڑھیے

9 نظم (Nazm)

    روشنی سے بھرا شہر

    روشنی سے بھرا اک شہر دیکھیے دل میں سارے اندھیرے چھپائے ہوئے کونے میں کترے میں کچرے کے ڈھیرے سڑی تنگ گلیوں میں بدبو کے ڈیرے دھسکتی دیواروں کے پر خوف گھیرے تھکی زرد آنکھوں کے بیمار چہرے جن کو صدیاں ہوئیں مسکرائے ہوئے روشنی سے بھرا اک شہر جہاں نونہالوں میں بچپن نہیں ہے جوانی ...

    مزید پڑھیے

    خواب آسمانوں سے

    خواب آسمانوں سے رینگتی چینٹی سی زندگی دنیا سمیٹے دل اور چاک دامن کے چند چیتھڑے امید برقرار پھر بھی اور موسم سے ڈھل رہے ارادے دو گھڑی اور سلسلہ شاید دم نکلنے میں رہ گیا ہوگا ایسے لوگوں کی زندگی کیا ہے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا مرنے کے بعد سب کا کیا ہوگا اور پھر یہ گماں گزرتا ...

    مزید پڑھیے

    شام کو لوٹتی چڑیا

    شام کو چہچہاتی لوٹتی چڑیا کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے بسیرے والا پیڑ کاٹ دیا گیا ہے گھونسلے میں رکھے اس کے انڈے روند دئے گئے ہیں پیڑ والی جگہ پر مال بنانے کی پرکریہ جاری ہے لوٹتے لوٹتے چڑیا کو اندھیرا ہو جائے گا اور جب وہ گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے بھٹکے گی تو اندیشہ یہ ہے کہ کھلے پڑے بجلی ...

    مزید پڑھیے

    رہنے دو مجھے

    گزرے ہوئے وقتوں سے نکل کر دیکھا آج کا دور علاحدہ تو نہیں ہے وہ ہی آواز کے سائے وہ ہی بے شرم سراب آج بھی موجود ہیں کل جیسے خراب چہرے ذرا بدلے ہیں نئی بات نہیں ہے مانا بیتے ہوئے کل سے ندامت ہے مجھے ایسا کچھ بھی تو نہیں جس سے عقیدت ہے مجھے ماضی ولے کچھ بھی ہو جینے کا بہانہ ہے مرے اک ...

    مزید پڑھیے

    زہر کا دریا

    چلو کہ زہر کے دریا کی سیر کی جائے اسے متھیں اور امرت کی کھوج کی جائے اپنے خود غرض ارادوں کی باٹ بٹ کر کے کائنات اک نئی شروع کی جائے وہ جو دانوؤں کو بھسم کرتی ہو جو دیوتاؤں کو انسان کرتی ہو وہ جس میں شیو کو زہر پینا نہ پڑے وہ کائنات جو سب کو سمان کرتی ہو وہ جس میں بھیس راہو بدل نہ ...

    مزید پڑھیے

تمام