Qaisar Ziya Qaisar

قیصر ضیا قیصر

قیصر ضیا قیصر کی نظم

    گل بہ نوک خار

    مری زلفیں نہیں کالی گھٹا ہیں مری پیشانی ہے مہتاب جیسی مری آنکھیں کنول کی پنکھڑی ہیں مرے لب ہیں گلابوں سے مشابہ مرے گالوں میں ہے لالی شفق کی مری گردن صراحی دار دیکھو مری باہیں ہیں مثل شاخ صندل بدن میرا ہے لالہ زار دیکھو اداؤں میں مری جادوگری ہے مری ہستی مکمل شاعری ہے ہوس کے مارو ...

    مزید پڑھیے

    حسرت

    جب شام کے سائے ڈھل جائیں جب شمعیں فلک کی جل جائیں جب رات درخشاں ہو جائے پر نور شبستاں ہو جائے تب ساتھ مرے تم سو جانا اور خواب زریں میں کھو جانا

    مزید پڑھیے

    قصر ویراں

    میں اس کو تکتا رہتا ہوں جو فرخ زاد کی غزلوں کی صورت خوب صورت ہے کہ جس کے پھول سے تن کو کسی رنگین تتلی کے رسیلے معتبر ہونٹوں کے بوسوں کی ضرورت ہے وہ اک شہکار ہے شاید خدائے پاک کے فن کا کہ جس کی سادگی میں بھی ہے رقصاں حسن کا جادو کمر سینہ ہو گردن ہو کہ اس کے دست اور بازو تراشیں سب کی ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ہجر

    یہ تیرے ہجر کی آندھی کہاں لے آئی ہے مجھ کو یہاں ہر سمت اک سورج سوا نیزے پہ جلتا ہے نہ سر سے دھوپ اترتی ہے نہ سایہ کوئی ڈھلتا ہے ہوائے شام چلتی ہے نہ کوئی شمع جلتی ہے فلک پر نجم آتے ہیں نہ تو مہتاب آتا ہے کسی کی آنکھ سوتی ہے نہ کوئی خواب آتا ہے

    مزید پڑھیے

    سفر صحرا

    کیا کہوں زخم کتنا گہرا ہے دور تک صرف محض صحرا ہے ہر قدم پر بگولے رقصاں ہیں راہ میں ہر سو شعلے رقصاں ہیں نہ شجر ہے نہ کوئی سایہ ہے کوئی چشمہ نہ کوئی دریا ہے دھوپ سر پر برستی رہتی ہے پیاس لب پر لرزتی رہتی ہے تیرگی چشم تر پہ طاری ہے اور سفر ہے کہ پھر بھی جاری ہے

    مزید پڑھیے