سفر صحرا
کیا کہوں زخم کتنا گہرا ہے
دور تک صرف محض صحرا ہے
ہر قدم پر بگولے رقصاں ہیں
راہ میں ہر سو شعلے رقصاں ہیں
نہ شجر ہے نہ کوئی سایہ ہے
کوئی چشمہ نہ کوئی دریا ہے
دھوپ سر پر برستی رہتی ہے
پیاس لب پر لرزتی رہتی ہے
تیرگی چشم تر پہ طاری ہے
اور سفر ہے کہ پھر بھی جاری ہے