Premi Romani

پریمی رومانی

پریمی رومانی کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    تا فلک ہے خوشبوؤں کا سلسلہ (ردیف .. ا)

    تا فلک ہے خوشبوؤں کا سلسلہ پھینک دے مجھ کو خلاؤں میں ذرا چھوڑ کے تنہا مجھے کیوں وہ گئے میں بھی حیراں ہوں کیا ہے میں نے کیا چاندنی پگھلی ہوئی تھی رات کی دن نہ جانے کیوں اداسی میں رہا اب کبھی شاید نہیں آئے گا وہ دن بھی ڈوبا رات نے پہرہ کیا آج بھی باہر نہ دن بھر جا سکا راستہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    میں کون ہوں میں کیا ہوں یہی سوچ رہا ہوں

    میں کون ہوں میں کیا ہوں یہی سوچ رہا ہوں صورت میں مقید ہوں مگر بکھرا ہوا ہوں تا حد نظر میرے سوا کوئی نہیں ہے میں جیسے کسی درد کے صحرا میں کھڑا ہوں یہ بات مری سوچ سے باہر ہے ابھی تک میں کوہ تھا پھر کیسے سمندر میں بہا ہوں یہ سچ ہے کسی کا ہوں میں مطلوب نہ طالب حیران ہوں کس واسطے دنیا ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر تجھ کو نہ جانے کیوں ادھر

    دیکھ کر تجھ کو نہ جانے کیوں ادھر کھل رہے ہیں خود بہ خود دیوار و در یا رقم کر پانیوں پر اپنی بات یا سلگتی ریت پر آ کر بکھر زندگی کا یہ حسیں منظر تو دیکھ وہ پرندے ہم سخن ہیں شاخ پر برف راتوں کا اثاثہ کون ہے چلچلاتی دھوپ میں گھوما نہ کر یا خلا کو اپنی مٹھی میں سمیٹ یا ندی بن کر ...

    مزید پڑھیے

    کھل گئی کھڑکی اچانک پھر بھی مجھ کو ڈر نہ تھا

    کھل گئی کھڑکی اچانک پھر بھی مجھ کو ڈر نہ تھا اب مری آنکھوں میں کوئی رات کا منظر نہ تھا بہہ رہا تھا چار سو اک ریت کا دریا مگر جس جگہ پر میں کھڑا تھا راستہ بنجر نہ تھا شہر کے سارے مکاں لگنے لگے ہیں ایک سے جس مکاں میں بھی گیا دیکھا میرا وہ گھر نہ تھا یاد جب کرنے لگا تب رنگ موسم بھی ...

    مزید پڑھیے

    سب کے لبوں پہ آج برابر ہے یہ سوا (ردیف .. ل)

    سب کے لبوں پہ آج برابر ہے یہ سوا بستی میں کیسے پھرتے ہیں صحرا کے یہ غزال تنہائیوں میں قید رہا ہوں ادھر ادھر سارے نگر کے لوگ مرے غم میں تھے نڈھال چرچا کئی دنوں سے ہے یہ سارے شہر میں خوابوں میں رہ کے عمر بتانا ہے اب محال اندھے تمام آئینے بے نور سب کی آنکھ پہچان لے تو کیسے کوئی ...

    مزید پڑھیے

تمام