سب کے لبوں پہ آج برابر ہے یہ سوا (ردیف .. ل)
سب کے لبوں پہ آج برابر ہے یہ سوا
بستی میں کیسے پھرتے ہیں صحرا کے یہ غزال
تنہائیوں میں قید رہا ہوں ادھر ادھر
سارے نگر کے لوگ مرے غم میں تھے نڈھال
چرچا کئی دنوں سے ہے یہ سارے شہر میں
خوابوں میں رہ کے عمر بتانا ہے اب محال
اندھے تمام آئینے بے نور سب کی آنکھ
پہچان لے تو کیسے کوئی اپنے خد و خال
پریمیؔ ہر ایک رات کے سر پر ہے ایک رات
سورج ہے وہ سراب کہ جس کا نہیں زوال