دیکھ کر تجھ کو نہ جانے کیوں ادھر
دیکھ کر تجھ کو نہ جانے کیوں ادھر
کھل رہے ہیں خود بہ خود دیوار و در
یا رقم کر پانیوں پر اپنی بات
یا سلگتی ریت پر آ کر بکھر
زندگی کا یہ حسیں منظر تو دیکھ
وہ پرندے ہم سخن ہیں شاخ پر
برف راتوں کا اثاثہ کون ہے
چلچلاتی دھوپ میں گھوما نہ کر
یا خلا کو اپنی مٹھی میں سمیٹ
یا ندی بن کر سمندر میں اتر
فائدہ خالی گرجنے سے ہے کیا
چپکے سے اے ابر آوارہ گزر