تا فلک ہے خوشبوؤں کا سلسلہ (ردیف .. ا)
تا فلک ہے خوشبوؤں کا سلسلہ
پھینک دے مجھ کو خلاؤں میں ذرا
چھوڑ کے تنہا مجھے کیوں وہ گئے
میں بھی حیراں ہوں کیا ہے میں نے کیا
چاندنی پگھلی ہوئی تھی رات کی
دن نہ جانے کیوں اداسی میں رہا
اب کبھی شاید نہیں آئے گا وہ
دن بھی ڈوبا رات نے پہرہ کیا
آج بھی باہر نہ دن بھر جا سکا
راستہ تھا دھند میں لپٹا ہوا
زندگی نے درد جو مجھ کو دیا
شاعری سے وہ کسی حد تک مٹا