میں کون ہوں میں کیا ہوں یہی سوچ رہا ہوں
میں کون ہوں میں کیا ہوں یہی سوچ رہا ہوں
صورت میں مقید ہوں مگر بکھرا ہوا ہوں
تا حد نظر میرے سوا کوئی نہیں ہے
میں جیسے کسی درد کے صحرا میں کھڑا ہوں
یہ بات مری سوچ سے باہر ہے ابھی تک
میں کوہ تھا پھر کیسے سمندر میں بہا ہوں
یہ سچ ہے کسی کا ہوں میں مطلوب نہ طالب
حیران ہوں کس واسطے دنیا میں جیا ہوں
بے بس ہوں میں اے مجھ سے ضیا مانگنے والو
میں دیپ تھا جلنے سے مگر پہلے ہی بجھا ہوں
پریمیؔ مجھے اس بات کا خود علم نہیں ہے
وہ کون ہے میں جس کے خیالوں میں گھرا ہوں